قربانی کے بڑے اور چھوٹے جانور میں شرکت کی تحقیق

ازقلم: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس جامعہ نعمانیہ ویکوٹہ آندھرا پردیش

قربانی کا ثبوت کتاب و سنت سے ثابت ہے،ارشاد خدا وندی ہے:
فصل لربك وانحر (الكوثر 2)
اس آیت کے تحت مفسر قرآن حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی رحمہ اللہ بہت ہی پتے کی بات لکھ گئے ہیں، اور اس سے ان لوگوں کی تردید بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ "وانحر” سے مراد سینہ پر ہاتھ باندھنا ہے، مولانا لکھتے ہیں:
”فصل“نماز، یہاں قائم مقام ہے ساری بدنی عبادت کے۔۔۔۔۔۔۔ ”وانحر“قربانی، یہاں قائم مقام ہے ساری مالی عبادت کے، اور پھر اونٹ کی قربانی تو عرب میں اعلی ترین اور اس کا اہل حاجت پر تقسیم کرنا بہترین صرف ہے۔(تفسیر ماجدی)
قربانی ائمہ اربعہ میں سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک واجب ہے، جبکہ امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک سنت ہے۔
(صحیح فقہ السنہ:367/3)
قربانی میں دو قسم کے جانور ذبح کیا جاتا ہے
(1)بڑے جانور، اس میں گائے بیل، بھینس بھینسا، اونٹ اونٹنی شامل ہے، ان جانوروں میں سات آدمی کی شرکت ہوتی ہے اور یہ حدیث نبوی سے ثابت ہے:
عن جابر رضي الله عنه قال:نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة.(سنن الترمذي:1591)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ کی سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے کی سات آدمیوں کی طرف سے قربانی کی۔
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
ائمہ اربعہ کے نزدیک اونٹ گائے بھینس میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔(تحفۃ الالمعی:438/4)
(2)چھوٹے جانور، اس میں بکری، دنبہ، مینڈھا شامل ہے، ان جانوروں میں شرکت ہے یا نہیں اس سلسلے میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف ہے، حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام مالک واحمد رحمھم اللہ کے نزدیک اگر کوئی شخص پوری فیملی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے تو جائز ہے سب کی طرف سے قربانی ہوجائے گی، بشرطیکہ وہی تنہا اس بکری کا مالک ہو اور سب گھر والے ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔
اور حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک ایک بکری سب گھر والوں کی طرف سے نہیں ہے ہر صاحب نصاب پر مستقل قربانی واجب ہے۔(تحفۃ الالمعی:338/4)
مالکیہ و حنابلہ کی دلیل حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
عطاء بن يسار يقول سألت ابا ايوب رضي الله عنه كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال:كان الرجل يضحي بالشاة عنه و عن اهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس فصارت كما تري.(سنن الترمذي:1594)
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ احناف اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں لوگ عام طور پر غریب ہوتے تھے اور گھر کے ایک شخص پر ہی قربانی واجب ہوتی تھی، وہی قربانی کرتا تھا اور ایک ہی قربانی کرتا تھا جس کو سب کھاتے تھے، پھر مفاخرت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور لوگ کئی کئی قربانیاں کرنے لگے پس اس حدیث سے امام مالک وغیرہ کا استدلال درست نہیں۔
ان حضرات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور اس میں امت کے ان لوگوں کو شریک کیا جو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکے تھے، معلوم ہوا اپنی قربانی میں دوسروں کو شریک کرسکتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے پوری روایت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے قربان کئے تھے، ایک اپنی طرف سے واجب قربانی کی تھی، اور دوسری نفل قربانی کی تھی جس میں امت کو شریک کیا تھا، یعنی ان کو ایصال ثواب کیا تھا، اور ایسا کرنا جائز ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، مسئلہ واجب قربانی میں دوسروں کو شریک کرنے کا ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ (تحفۃ الالمعی:338/4)
احناف کی دلیل ایک روایت ابن عمر کی ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما انه قال:الشاة عن واحد.(اعلاء السنن :210/17)
اور دوسری حضرت ابو ہریرەؓ کی روایت ہے
من وجدسعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا(سنن ابن ماجة:2123)
اس حدیث میں صاف طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص وسعت(صاحب نصاب ہونے) کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے، اب اگر ایک ہی بکری میں پوری فیملی کی طرف سے قربانی ہوجاتی تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی اور وہ بھی تاکید کے ساتھ کہ جس کے پاس وسعت ہو وہ قربانی کرے اور اگر ایسا نہیں کرتا ہے تو وہ ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ فافھم وتدبر!
خلاصہ یہ کہ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک وامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک چھوٹے جانور میں شرکت درست ہے، اور امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہم اللہ کے نزدیک چھوٹے جانور میں شرکت درست نہیں ہے، دونوں طرف دلائل ہیں اپنے ائمہ کی اتباع کرتے ہوئےجس پر بھی عمل کیا جائے درست ہے، لیکن بعض حضرات شوشل میڈیا پر ویڈیوز آیڈیوز کے ذریعہ اس کی تشہیر کررہے ہیں کہ ایک بکری میں ہی پوری فیملی کی قربانی ہوسکتی ہے، اس لئے اسی پر عمل کیا جائے، اور جو اس کے برخلاف کرتے ہیں وہ غلط ہیں، ایسی ذہنیت کے حامل شخص صرف لوگوں کو دین کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں، اور ان کا یہ عمل سوائے آپس میں انتشار اور آسان طلبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اللہ تعالی ہمیں شریعت مطہرہ کے پابند بنائے۔ (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے