جہیز ایک ہندوانہ رسم

ازقلم: عبدالعظیم، گوونڈی، ممبئی
9224599910

جن علاقوں میں عرب نسل کے مسلمان دور اوّل میں آئے (سندھ،،گجرات،کیرلا،تامل ناڈ)وہاں اسلام کی سماجی قدریں زیادہ اُبھری ہوئی ہیں -جہاں اسلام مغلوں اور دیگر ذرائع سے آیا وہاں ہندوستانی تہذیب کے اثرات نمایاں ہیں – مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے "اصلاح الرسوم” میں مسلمانوں میں رسم ورواج کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے – ڈاکٹر محمد عمر نے اپنے p hd کے مقالے "ہندوستانی تہذیب کے مسلمانوں پر اثرات” میں ہندو سماج سے ساتھ آئی رسم ورواج پر سیرحاصل گفتگو کی ہے-
جہیز ایک قبیح رسم ہےجو ہندؤں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں پوری طرح جڑ پکڑ چکی ہے وہ شادی میں اپنی لڑکی کا کنیہ دان کرتے ہیں – بیٹی کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیتے اس لیے دھوم سے فضول خرچی کرتے اور جو بن پڑتا ہے جہیز کے نام پر اکھّٹا دے دیتے ہیں – ساتویں صدی سے بر صغیر میں مسلمانوں نے بھی جہز کی رسم کو لازم کر لیاہے-اس کا نہ دینا عزّت اور شان کے خلاف سمجھا جانے لگا۔لالچی دولھا اور سسرال والے مانگ (demand) کر چیزیں طے کرنے لگےہیں –

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

آج مسلمانوں کی شادیوں میں بس ولیمہ اور مولانا کا ایجاب وقبول کرانا رہ گیا ہے-والدین کو جہیز جوڑنے کے لیے سودی قرض، چندہ، زکوٰۃ، اور اپنے گھر فروخت کر کے جوڑے گھوڑے کی رسم کو پورا کرنا پڑ رہا ہے-اس سے لڑکی کے جائز حق وراثت کو ختم کیا جا رہا ہے بھائیوں کے حقوق سلب ہورہے ہیں -وہ والد کی جائیداد میں اپنے حق سے محروم ہورہے ہیں -جس کے نتیجے میں رشتوں میں حسد، رنجش،بوجھ، دراڑ، فتنہ و فساد پیدا ہو رہا ہے-والدین کی زندگی بھر کی بچت، یہاں تک کے رہتے گھر فروخت کر کے کرائے کے گھر وں میں بقیہ فیملی کسم پُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے-

آنگنوں میں دفن ہو کر رہ گئی ہیں خواہشیں

ہاتھ پیلے ہوتے ہوتے رنگ پیلے ہو گئے

جہیز کی مانگ اور بن مانگے دینے کے لاشعوری رسم ورواج سے آج پڑھی لکھی، کم پڑھی، خوبصورت، خوب سیرت، کنواری بیٹیاں شادی کی عمر سے گزر کررشتوں سے محروم بیٹھیں جہیز کی بھینٹ چڑھ رہیں ہیں –

جہز فاطمی کوئی جہز ہے کیا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تینوں بیٹیوں کی شادی میں کچھ بھی نہ دیا تھا-البتہ حضرت علیؓ آپ کے زیرِ سرپرستی رہتے تھے۔جب ان سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح کروایا تب انتہائی ضرورت کا سامان فراہم کیا تاکہ وہ نئے گھر میں کھانے، سونے کا نظم کرسکیں۔
شہنشاہِ کونین نے سیدّہء عالم کو جو چیزیں دیں وہ۔۔۔”بان کی چار پائی، چمڑے کا گدا،جس میں کھجور کے پتّے بھرے تھے، ایک چھاگل، ایک مشکیزہ، دو چکیّاں اور دو مٹّی کے گھڑے دیے”۔۔۔ ملّت اِسے جہیز سمجھتی ہے۔اور اس کو جواز بنا کر برصغیر میں جہز کے نام پر بہت کچھ دیا جانے لگا-مال دار تو دے دلا کر اپنی بیٹیوں کے رشتے کردیتے ہیں لیکن غریب شخص کے لیے انتظام کرنا بہت مشکل ہوجاتاہیے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے