ممبئی: 24 مارچ
مرکزی حکومت کی طرف سے ‘ایک قوم ایک داخلہ ٹیسٹ’ کے آئیڈیا کو آگے بڑھانا ملک کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو غیر ضروری طور پر مرکزیت دینے کی ایک اور کوشش معلوم ہوتا ہے۔ اگر احتیاط کے بغیر اسے نافذ کیا جائے تو یہ تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
کامن یونیورسٹی انٹرنس ٹیسٹ (CUET) کو مرکزی یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لیے واحد داخلہ ٹیسٹ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ امتحان مختلف تعلیمی بورڈز کے بارہویں جماعت کے نمبرات میں تفاوت کے پیشِ نظر اور داخلہ کے عمل کو ہموار کرنے کے لیے ایک ضروری اقدام ہے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ امیدواروں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں نشستوں کی کم دستیابی اور مرکزی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی کمی مسئلے کی جڑ ہے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ مرکزی طور لیے جانے والے داخلہ کے امتحانات کے سبب سماج کے حاشیے پر موجود طلباء تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں۔ وہیں یہ امتحانات کوچنگ کلچر کو فروغ دیتے ہیں، طلباء میں غیر صحت بخش مقابلہ، اضطراب اور ذہنی صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں، تعلیمی بوجھ کو بڑھاتے ہیں اور جامع سیکھنے کی بجائے ٹیسٹ پر مبنی مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اگر ضروری احتیاط نہ کی جائے تو اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ CUET بھی میڈیکل داخلہ کے امتحان NEET کے جیسا ایک اور امتحان بن جائے گا۔
لہٰذا یہ امتحان صرف مرکزی یونیورسٹیوں تک ہی محدود ہونا چاہئے اور اسے ریاستی یونیورسٹیوں اور ایسے دیگر اداروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے جو طلباء کو بورڈ کے نمبروں کے ذریعے آسانی سے داخلہ دے سکیں۔ امتحان کا نصاب کام سے کم ہو جبکہ سوالات کی سطح اوسط ہو۔ ملک کے ہر حصے میں امتحانی مراکز کی کافی تعداد اور زیادہ سے زیادہ زبانوں میں ٹیسٹ کی دستیابی کو یقینی بنانا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ان میں طلباء کی تعداد کو بڑھانے اور تدریسی اسامیوں کو پر کرنے کے لیے مناسب وسائل فراہم کیے جانے چاہئیے۔
فواز شاہین
نیشنل سکریٹری، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا