افسانہ: شکستہ یادوں کے درمیان

افسانہ نگار: احمد صغیر

میں رات کے خاموش کمرہ میں اُداسی کی چادر اوڑھے لیٹا ہوں۔ چاروں طرف سے میرے اوپر آوازوں کے حملے ہونے لگے ہیں اور کمرہ کی تنہائی اچانک شور میں تبدیل ہو گئی ہے۔ میں جب سے اُس علاقے سے لوٹا ہوں‘ کئی طرح کی آوازیں میرا پیچھا کر رہی ہیں۔ میں اُس آواز سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن آواز سماعت سے اس طرح ٹکراتی ہے جیسے ابھی بھی میں اس شور کے جنگل میں کھڑا ہوں۔ جنگل…… بیابان…… بنجر زمین…… بھوکے لوگ……پیاس کی شدّت……بے لباس جسم……میں کس علاقے میں تھا……میں اُس علاقے سے کب کا لوٹ آیا ہوں پھر کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ابھی بھی وہیں کھڑا ہوں……جہاں ایک معصوم بچہ بھوک سے مرنے کے درپے ہے اور ایک گدھ اس انتظار میں اس کی طرف تاک رہا ہے کہ کب وہ مرے اور اس پر حملہ آور ہو……اور اس مردہ کا گوشت کھا کر خود کو سیراب کرے۔

بچہ مرے گایا وہ گدھ انتظار چھوڑ کر کسی دوسرے مرے ہوئے انسان کی تلاش میں نکل پڑے گا۔کہا نہیں جا سکتا۔ بچے تو روز مرتے ہیں۔کسی کی گولی کا شکار ہوکر……کسی کی اذیت سہہ کر……کسی شلٹر ہاؤس میں ……کسی مالک کے ظلم سے ……کبھی فساد میں……بھوک سے……غریبی سے……بچے کیا……جوان بھی مرتے ہیں……عورتیں بھی مرتی ہیں اور بوڑھے بھی موت کو گلے لگاتے ہیں لیکن سبھی کی موت کے پیچھے ایک لفظ غریبی……دوسرا لفظ مجبوری……تیسرا لفظ لاچاری……چوتھا لفظ مظلوم ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مارنے والا ظالم ہوتا اور مرنے والا مظلوم۔ اقتدار میں رہنے والا اقتدار کے نشے میں اس طرح بدمست ہو جاتا ہے کہ اسے مظلوموں پر ذرا بھی ترس نہیں آتا۔

بھوک کا ذمہ دار بھی حکمراں ہے

فساد کا ذمہ دار بھی حکمراں ہے

غریبی کا ذمہ دار بھی حکمراں ہے

حکمراں قطعی نہیں چاہتا کہ سماج میں توازن ہو۔ اگر توازن ہو گیا تو اس کی بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ وہ ظالم کو اس لئے چھوٹ دیتا ہے کہ مظلوم اس سے فریاد کرے اور اس کی فریاد کو ان سنا کر دے۔ ظالم اس لئے مغرور ہو جاتا ہے کہ اسے ظلم کی سزا نہیں ملتی بلکہ اسے ظلم کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بھوک ابھی باقی ہے۔ اور اس وقت تک باقی رہے گی جب تک امیری غریبی کی دیوار کھڑی ہے۔ امیری کی دیوار روز بروز اونچی ہوتی جا رہی ہے اور غریب بھوک سے اس طرح نڈھال ہیں کہ بس دو روٹی کی فکر میں ان کی زندگی گزر جاتی ہے۔ زندگی کے مزید تقاضوں کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ بھوک سے نڈھال جسم گھسٹ گھسٹ کر رینگتا ہے اور امیری ہنستی ہے ……ہاہاہا ……معصوم بچہ بھوک سے مرنے کے درپے ہے۔ وہ پلٹ کر گدھ کی طرف دیکھتا ہے۔ اس میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ گدھ کو بھگا سکے یا دوڑ کر بھاگ سکے۔ اس کی نگاہیں ادھر ادھر دیکھتی ہیں۔ کچھ تلاش کرتی ہیں۔ شاید کہیں کوئی روٹی کا ٹکڑا ہی نظر آجائے جسے کھا کر تھوڑی سی زندگی کی اُمید باقی رہ جائے لیکن وہاں کھانا کیا پانی بھی نہیں تھا جسے پی کر وہ اپنی پیاس بجھا سکے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ شاید اوپر سے کوئی کھانا ہی گرا دے یا بارش ہی ہو جائے اور وہ اپنی پیاس بجھا لے۔ میں رات کے خاموش کمرے میں اداسی کی چادر اوڑھے لیٹا ہوں۔ اور رات آہستہ آہستہ گذر رہی ہے۔ میں بھوک سے مرتے ہوئے اُس بچے کو کیوں نہیں بچا پایا۔ اگر میں چاہتا تو اُسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا۔ میں اُسے لینے کے لئے اُس کی طرف بڑھا بھی تھا لیکن میرے دوستوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا—— ’’پاس مت جاؤ……اُس کی بیماری تمہیں چھو جائے گی۔‘‘ اُس کے باوجود میں اُس مرتے ہوئے بچے کے قریب جانا چاہتا تھا لیکن میرے دوستوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور ہیلی کاپٹر پر زبردستی چڑھا کر آسمان میں پرواز کرنے لگا۔ وہ مرتا ہوا بچہ کس مرض میں مبتلا تھا؟ سب سے بڑی بیماری تو بھوک ہوتی ہے۔ کیا بھوک سے بھی خطرناک کوئی بیماری اس دنیا میں ہو سکتی ہے؟ میں اُس رات بہت رویا تھا بلکہ جب بھی تنہا ہوتا ہوں۔ روتا ہی رہتا ہوں۔ ہر وقت اس بچے کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو—— ’’انکل مجھے مرنے کے لئے چھوڑ دیا اور میری تصویر لے کر چلے گئے…… میری تو کوئی اہمیت نہیں ہے……البتہ میری تصویر کی اہمیت ہے جو لاکھوں ڈالر میں فروخت ہو گی اور آپ امیر بن جائیں گے، مشہور ہو جائیں گے اور اس ایک تصویر کی وجہ سے بعد میں کروڑوں کمائیں گے۔ مجھے بچا کر آپ کو کیا ملتا۔ میرے جیسے بچے تو روز مرتے ہیں۔ میں بھی مر جاؤں گا…… مرنے کے بعد میرا مردہ جسم یہ گدھ نوچ نوچ کر کھا جائے گا لیکن اُس وقت تصویر لینے کے لئے آپ نہیں ہوں گے۔ کوئی نہیں ہوگا۔ مرے ہوئے لوگوںکی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ البتہ جو مرنے کے درپے ہے۔ اُس تصویر کی قیمت ہوتی ہے۔ بچے کا بار بار میری نظروں کے سامنے آنا اور سوال کرنا مجھے پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔ میں خود کو مجرم گداننے لگتا ہوں۔ کیا واقعی میں اُس بچے کا مجرم ہوں یا یہ سماج…… یہ سسٹم اُس کا ذمہ دار ہے۔ جس نے اُسے موت کے قریب پہنچایا۔ سماج اسی طرح چلتا رہے گا……سسٹم میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہوگی۔ دنیا میں بھوک کم نہ ہوگی اور نہ موت کی شرح ہی کم ہوگی تو پھر بار بار وہ بچہ میرے دماغ کے کمپیوٹر اسکرین پر کیوں اُبھرتا ہے اور موت کا ذمہ دار مجھے کیوں گردانتا ہے۔ میں تو وہاں صرف تصویر اُتارنے گیا تھا۔ تصویر اُتاری اور واپس اپنے ملک آگیا۔ مجھے اسی طرح کی تصویر اُتارنے کے لئے ہی تو بھیجا گیا تھا۔ کیونکہ قیمت تو ایسی ہی تصویروں کی ملتی ہے اور وہ مجھے ملی بھی۔ میں صرف اُس ایک تصویر کی وجہ سے دنیا میں مقبول ہو گیا لیکن وہ بچہ…… میں بار بار اس بچے کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں۔ اُس بچہ سے میرا کیا رشتہ تھا۔ وہ تو میری برادری کا بھی نہیں تھا۔ میرے مذہب کا بھی نہیں تھا، میرے ملک کا بھی نہیں تھا۔ اُس جیسے بچے کی تو نہ جانے کتنی تصویریں میں نے کھینچی تھیں لیکن اُس ایک تصویر نے مجھے شہرت کی اُس بلندی پر پہنچا دیا جس کے بارے میں میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بچہ، ……گدھ ……اور تصویر……! بھوک……سماج…… اور سسٹم! میں رات کے خاموش کمرے میں کرسی پر بیٹھا ہوں۔ نہ چاہتے ہوئے ٹیبل پر پڑے البم کو اٹھاتا ہوں اور اپنی کھینچی ہوئی تصویروں کو دیکھنے لگتا ہوں۔ میں جلدی جلدی تصویروں کو پلٹتا ہوں۔ شاید میری نگاہیں اُس تصویر کو ڈھونڈ رہی تھیں، جس نے مجھے بے چین کر رکھا تھا۔ آخر کار وہ تصویر میری نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ تصویر بوسیدہ ہو چکی ہے لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ بچہ ابھی بھی اسی مقام پر موجود اور وہ گدھ بھی اُسی طرح اُس بچے کو گھور رہا ہے۔ ’’میں آگیا……‘‘ اچانک اُس بچے کی آواز کمرے میں گونجتی ہے۔ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں۔ بچہ تصویر سے نکل کر میرے کمرے میں آگیا ہے لیکن گدھ؟ میں گدھ کو تلاش کرنے لگتا ہوں۔ میں دروازے کی طرف دیکھتا ہوں۔ جہاںگدھ ٹکٹکی لگائے نہ صرف اُس بچے کو دیکھ رہا ہے بلکہ مجھے بھی گھو ررہا ہے۔ میں اُسے بھگانا چاہتا ہوں لیکن وہ غصیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتا ہے۔ بچہ میرے کمرے میں موجود ہے اور گدھ بھی اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے۔ میں کیمرہ اٹھاتا ہوں اور سوچتا ہوں کس کی تصویر لوں۔ بچہ کی یا گدھ کی۔ موجود تو دونوں ہیں لیکن وہ جگہ نہیں ہے۔ جہاں بچہ مر رہا تھا تو کیا مجھے ایک بار پھر اُس مقام پر جانا ہوگا۔ جہاں وہ تصویر اُتاری تھی لیکن اس طرح کے مقام تو ہر جگہ موجود ہیں۔ مرتے ہوئے بچے بھی م وجود ہیں اور گدھ بھی موجود ہے لیکن نہ بھوک سے مرتے ہوئے بچے کو بچانے والا کوئی ہے اور نہ گدھ کو بھگانے والا۔ کیونکہ سسٹم اب گدھ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔