ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
ملت کی حالت بدلنے اور حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے حالات کا صحیح تجزیہ ,گیر جزباتی اور معروضی جائزہ لیں ۔ملت کی بازیافت اور منصوبہ بند جدوجہد کے لیے ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھیں۔۔۔
چند توجہ طلب امور
(1) ہماری عمومی جہالت 40%..۔۔دینی جہالت 90%.
ہے۔مسلمانوں کی اندرونی اصلاح اور دینی و عصری تعلیم پر پقری توجہ۔
(2) مسلمان ایک منقسم کنبہ (Divided House) ہیں۔اتحاد اور جنعیت کی کوشش۔
(3) شعیہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، اشراف، اجلاف اور مختلف جماعتوں کے درمیان انتشار وخلفشار پیدا کر دیا گیا ہے۔
(4)مسلک اور برادری کا جھگڑا، فروعی اور غیر ضروری مسائل۔جماعتی عصبیتوں اور سیاسی دھڑے بندیوں نے ملت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔
(5) قیادت کا فقدان ہے۔آزادی کے بعد ہی سے ہم ایک بے قیادت گروہ ہیں۔ شتر بے مہار ہیں ۔مسلمانوں میں سیاسی بیداریPolitical Awarebess،سیاسی شعور Pilitical consciusness کی بے حد کمی ہے۔ مسلم ذہن کی فکری تنگ دامنی نے اس سے سیسہ پلائی دیوار بنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔اب جبکہ اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے پھر بھی اس کی سوچ Narrative میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آتی ۔
(6) اس وقت مسلمان تمام معاشی، سیاسی سماجی، تہذیبی اور صحت کے اشاریہ کی بنیاد پر ملک کی پسماندہ ترین آبادی ہے۔ملت کی سطحی جذباتیت، بے شعوری، انتشار اور موثر قیادت کا فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے حقیقی مسائل پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔
نزدیک پہنچ کر ساحل کے افسوس وہ کشتی ڈوب گئی
(7)بھوک، بے روزگاری، غریبی، تعلیم، جہالت، ظلم، استحصال، صفائی ستھرائی، ڈرینیچ اور سیوریج(گندی نالیاں)، صحت، حفاظت، تحفظ، نئی نسلوں کی حفاظت، نشہ آور چیزوں کا استعمال، خواتین کی حق تلفی ان کے ساتھ بدسکوکی، دین سے غفلت، شعائر اسلام کا عدم احترام، عبادات، اخلاقیات، معاملات کی شفا فیت اور وعدے کو پورا کرنے سے غفلت، ذات پات برادری واد، جہز کی لعنت، ظلم وشقاوت، عدم رواداری، بیواؤں، یتیموں سے برا سلوک-
تن ہمہ داغدار شد
حکمتWisdom
استقلال Determinatiin سے
کرنے کے کام
ہے قوت بازو میں تری راز سعادت
تو ڈھونڈتا پھرتا ہے اسے بال ہما میں
(1)اسلام جو حرکت، جامعیت اور مرکزیت کا منبع ہے ایک جامد اور محدود تصور حیات بن کر رہ گیا ہے۔مسلمانوں کی بڑی آبادی جہالت اور لاعلمی کے سبب اسلام سے دور ہے۔وہ روایتی دین داری اور رسومات سے متاثر ہے۔
“تعلیم حاصل کرو۔منظم ہو اور جدوجہد کرو”
Educat, unite and Struggul
(2) ملت کے ایک ایک فرد کے اندر امید و حوصلہ جگانا اورخوف اور احساس کمتری کودور کرنے کی مہم۔
منزلیں خود سلام بھیجے گی
شرط اول ہے حوصلہ کرنا
(3) ہمیں وسیع تر ہندو سماج سے سماجی رابطہ مضبوط کرنا ہوگا۔ملت کو اپنے بند خول سے باہر نکل کر پورے ملک میں واضح خطوط کار کے ساتھ دعوت دین اور غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش ہر سطح ہر کرنی ہوگی ۔
(4)اپنے افکار، شعائر کی حفاظت کے لیے ایک علمی تحریک اور اپنے حقوق کی باز یابی کے لیے عملی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
(5) ظلم کے خلاف متحدہ محاذ اور سدبھاونا منچ بنانے کی ضرورت ہے ۔
(6) ملک میں فرقہ ورانہ میل ملاپCommunal Harmony کے سلسلے میں آگے بڑھ کر انصاف کی علمبرداری، احترام، برابری کے سلوک کے لیے کوشش کرنا ہے۔ مسلمان ہندوستان کی اٹوٹ اکائی ہے ۔
(7)ملت کے اندر امداد باہمی، معاشی استحکام اور معاشی ترقی پر زور۔محنت کی عظمت اور بھیک سے نفرت پیدا کرنے کی مہم۔معاش اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور Skill Development کی کوشش ۔
(8) ناکامیوں کے باوجود سنبھلنا، ہمت نہ ہارنا، صبراور ڈسپلن پیداکرنا، منظم ہونا اور اپنے راہ نما کی بات ماننا انتہائی ضروری امر ہے۔
(8) ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا داعیہ ہو۔تشدد اور انتہا پسندی کے نرغے سے بچیں۔افہام وتفہیم سے مسئلے حل ہوں۔
(9) ملک کے پولیٹیکل سسٹم، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے ذریعہ جتنے شہری حقوق کا حصول ممکن ہے ان کو حاصل کرنے کے لیے انسانی وسائل کی قدروقیمت اور ان کا استعمال ۔اجتماعیت اور اس کے ذریعے سے معلومات عوام تک پہنچائی جائے ۔
(10) سماج میں خدمت خلق، خیرخواہی، حق وانصاف، عورتوں کی عزت واحترام اور ان کے حقوق کا تحفظ، انسانوں سےمحبت ان کےمسائل کے حل لیے مشرکہ پلیٹ فارم سے وابستگی اور دیگر اقوام کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ واضع ہو کہ فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیر ہی سے پر امن اور ترقی یافتہ ریاست کی تشکیل ہوتی ہے۔
خدا درد والوں کو آباد رکھے
جو جاگے ہوئے ہیں، جگائے ہوئے ہیں