اب اگر سوئے تو ہمیشہ کے لیے سوجاؤگے!!

تحریر:شاہ خالد مصباحی
قارئین!!
 عالمی صورتحال سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ کہ اک لا علاج بیماری  وائرس کی شکل میں پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیاہے – جملہ مذاہب  و ادیان کے اسکالرس نے اپنے اپنے  طرز و طرائق   سے مختلف الاراء و افکار کو پیش عوام کیا۔ کسی نے چین کو بم بنانے کے مشن کی نا کامی کو لے کر تنقیدیں کیں تو بہت سے لوگوں نے  اسے ، عذاب،  وبا ، آزمائش جسے لفظوں کی تعبیرات میں ڈھال کر حواس و جذبات کو ابھاکر صحیح راستے پر چلنے کی تلقین بھی کیں۔ 
        لیکن اس سے قبل اک قدم پیچھے ہٹ کر سوچیں ، تو  آپ کو احساس ہوگا کہ آپ  آج ہی صرف وائرس کے شکار نہیں ہوں گے ،  بلکہ آپ کو برسوں سے  مختلف وائرس میں پھنسانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں_ آج یہ وائرس انفرادی طور پر آپ کی جان پر حملہ آور ہورہا ہے _ 
  لیکن کل اس سے بھی بڑا وائرس آرہا ہے جو ہماری جان و نسل پوری قوم کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کافی ثابت ہوگا!! 
            *اس لیے چند حقیقت سے معبر ، معلوماتی چیز آپ کے پیش نظر کررہا ہوں ۔ جو ہماری سوئی ہوئی روح کو جگانے ، اور غفلت میں پڑے ،  سوئےہوئے حواس کو لتیانے کے لیے  کافی ثابت  ہونا چاہیے!* 
 قارئین!! 
پہلی بات آپ کو میں بتانا چا ہتا ہوں کہ  آج جس خطہ کو شام کہا جاتا ہے، یہ پورا شام نہیں ہے بلکہ اس ملک شام کا صرف ایک حصہ ہے، وہ شام جس کا تذکرہ تاریخ میں مذکور  ہے۔  وہ اب پانچ مستقل ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے:
 *(۱) موجودہ شام، (۲) فلسطین، (۳) اردن، (۴) لبنان اور (۵) اسرائیل اسی شام کے خطے میں ہیں، جس کا قرآن و حدیث اور تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے۔*
 دوسری حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق شام کے سرزمین بابرکت، لائق تعظیم  اور مقدس مقامات میں سے ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج میں ’’الارض التی بارکنا فیہا‘‘ کا جو ذکر ہے، وہ اسی شام میں شامل ہے۔ 
تیسری حقیقت:  اسلامی تعلیمات کے مطابق زمین کے محترم اور مقدس مقامات میں حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ ارض فلسطین بھی ارض مقدسہ ہے، جب کہ کوہ طور کو بھی قرآن کریم نے ’’بالواد المقدس طویٰ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
چوتھی حقیقت یہ ہے کہ یہ علاقہ بہت سے مذاہب کی باہمی کشمکش کی جولان گاہ ہے۔ یہودی یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ ان کا مذہبی مرکز اور قبلہ ہے اور ان کے بقول ’’ہیکل سلیمانی‘‘ اسی خطے میں تھا۔ عیسائیوں کا قبلہ بیت اللحم بھی یہیں ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی اور جس کاتذکرہ قرآن کریم نے ’’اذانتبذت من اہلھا مکاناً شرقیاً‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔
 اور  جبکہ  ہم مسلمانوں کے لیے یہ قبلہ اول، مسجد اقصی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی ایک منزل کے طور پر قابل احترام ہے اور الفت و محبت کا محور و مرکز ہے۔ 
اور پانچویں حقیقت یہ ہے ان تین بڑی قوموں کے علاوہ بابیوں اور بہائیوں کا قبلہ بھی فلسطین میں ’’عکہ‘‘ نامی شہر ہے، جہاں مرزا بہاء اللہ شیرازی کی قبر ہے۔ 
 اور ذکر کیا جاتا ہے کہ فلسطین کا موجودہ صدر جناب محمود عباس اسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس طرح فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی مستقل کشمکش اور تنازع کو جولان گاہ ہے اور اس کے پیچھے دو ہزار سال کی تاریخ کا پس منظر موجود ہے، جس میں ان تینوں کے درمیان بڑی بڑی جنگیں اور خوفناک تصادم شامل ہیں۔
اور چھٹی حقیقت یہ  ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیت المقدس، فلسطین اور شام اسلامی دائرے میں شامل ہوئے اور ہم نے جہاد کے ذریعے عیسائیوں سے یہ علاقے حاصل کیے تھے۔ اس کے بعد کم و بیش تیرہ سو سال تک بیت المقدس کے قبضے کی جنگ انہیں دو قوموں کے درمیان رہی اور صلیبی جنگوں کے کئی دور ہوئے، جبکہ یہودیوں کا اس میں براہ راست کوئی کردار نہیں تھا۔ یہودیوں کو جب حضرت عمرؓ نے خیبر سے جلاوطن کیا، اس کے بعد بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک یہودیوں اور مسلمانوں کی کوئی باہمی جنگ تاریخ کے صفحات میں مذکور نہیں ہے،
 *بلکہ اس دوران یہودیوں اور عیسائیوں کا تصادم چلتا رہا، جس میں عیسائی یہودیوں کو قتل کرتے تھے اور جلاوطن کرتے تھے، جبکہ مسلمانوں کی اندلس اور ترکی کی حکومتیں یہودیوں کو پناہ دیا کرتی تھیں*۔ ۔
       قارئین!!  لیکن    پہلی جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی سے فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت مانگی، انہوں نے انکار کیا تو یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں سے صلح کرلی اور برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے
ان کے ساتھ معاہدہ کر کے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور جنگ عظیم اول کے بعد فلسطین پر قبضہ کرکے برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آکر بسنے کا موقع فراہم کیا (جیسا کہ قسط چہارم میں تفصیل سے مذکور ہے)   اور اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کرائی۔ اس دوران دیگر عرب ممالک کے ساتھ ساتھ شام بھی اس محاذ آرائی کا حصہ تھا، جس کا مقصد خلافت عثمانیہ کو ختم کرکے عالم اسلام اور عرب دنیا کو الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا، جس میں انہیں کامیابی ہوئی اور خلافت کا وجود ختم ہوگیا اور صرف شام کا علاقہ پانچ مستقل ملکوں میں تقسیم کردیا گیا۔( جیسا کہ ان ملکوں کا نام اوپر ذکر کیا گیا ) 
    *قارئین!!  یہ ایک صدی قبل کی بات ہے، لیکن اب امریکا اور اسرائیل دونوں مل کر اس خطے کو ایک نئی تقسیم سے دوچار کرنا چاہتے ہیں جس کا مقصد خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات کو روکنا ہے۔* 
     قارئین!! آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ سو سال پہلے کی جنگ جو ہوئی تھی  خلافت کو ختم کرنے کے لیے تھی لیکن موجودہ جنگ کا اصل ہدف خلافت کی بحالی کو روکنا ہے۔ جس میں مسلم ممالک کو بڑی  چابکدستی کے ساتھ اپنے نصیبے کو سنوارنا ہوگا ، جس کے لیے ترکی صدر رجب طیب اردگان بڑی دلیری کے ساتھ ان کے مشن کو ناکام بنانےکے لیے اپنی بات سربراہان ممالک کے سامنے رکھ رہیں ہیں___ ہم سبھی مسلم ممالک کے سربراہان کو ان کی آوازوں میں آوازیں ملانا چاہیئے ۔ 
اور قارئین!! 
 جیسا کہ ان کے پلید منصوبے کی   ایک جھلک سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے اس اعلان میں دکھائی بھی  دیتی ہے کہ “ہم دنیا کے کسی خطے میں نہ خلافت قائم ہونے دیں گے اور نہ ہی شریعت نافذ ہونے دیں گے””۔
  قارئین!!
خلافت کا قیام اور شریعت کا نفاذ تو نوشتۂ دیوار ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مہدی کے ظہور پر مکمل ہوگی، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اسی کو روکنے کے لیے یہ ساری قوتیں زور لگا رہی ہیں، لیکن توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے گروہوں کی جذباتیت اور غلط طریق کار بھی ان کا معاون بنا ہوا ہے۔ جو ہر محاذ پر باطل کے منصوبوں کو کامیابی بخش رہا ہے ۔  اور خلافت و شریعت کے عنوان سے ہونے والا بہت سا کام انہیں استعماری قوتوں کی تقویت کا باعث بھی  بن گیا ہے۔ جو امت کے  روشن مستقبل کے  نصیبے کو برباد کرڈالے گا۔ آج جو ہم اپنے اندر تھوڑی سی طاقت کو محسوس کر رہے ہیں ۔ یقین جانیں!! ہماری غفلت و سستی یہ بھی ہم سے چھین لے جائے گی_ اور ہم اک غلامانہ طرز زندگی کو اختیار کرنے پر مجبور ہو بیٹھیں گے___ اس لیے اب ہمیں ہر جہت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم پھر سے اس دور جہاں  کو انقلاب مصطفوی سے روشناس  کرا سکیں ۔ 
اس لیے میں مودبانہ معروض ہوں کہ 
اس صورتحال کو سمجھنے اور صحیح راستہ اور طریق کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کی طرف امت کے سنجیدہ علماء کرام کو توجہ دینے کی ضرورت  ہے۔
انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے