میری ڈائری: سفر نامہ دہلی (قسط نمبر ٩)
ازقلم: ابن الفظ، جھارکھنڈ
مرکز سے نکل کر ہم خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ کی اور جانے والی گلی میں داخل ہوئے قدم قدم پر پھول کی دکانیں سجی ہوئی تھیں پھول پتیوں کو پلیٹ میں سجا کر ہر دکاندار خریدنے کی صدا لگا رہا تھا، کچھ تو یہاں تک کہ رہا تھا کہ پھول لئے بغیر درگاہ میں جانا درست نہیں ہے، اس جملے سے حیرت بھی ہورہی تھی لیکن ہر کاروبار کا اپنا الگ حربہ ہوتا ہے ، کسی کی بھی صدا پر کان دھرے بغیر گلی کو پار کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم درگاہ میں داخل ہوئے ، اندر کچھ عجیب سا تماشا تھا جو ایک سچے مومن کیلے بالکل روا نہیں ہے، چاروں طرف نظر دوڑائی تو ہمیں نظام الدین اولیاء کے مزار سے کچھ پہلے بائیں جانب ۔۔ طوطی ہند امیر خسرو۔ ۔۔ کا مزار نظر آیا ، اندر داخل ہونے کیلے لائن میں کھڑے ہو گئے دروازہ کے قریب بہنچے تو مختلف جگہوں پر کچھ پرچے کچھ رسیاں بندھی ہوئی نظر آئیں جو کسی منت کش کا کارنامہ تھا اندر داخل ہونے سے پہلے ہر شخص دروازہ کو چومتا اس کو بوسہ دیتا اور پھر قبر کے پاس جاکر جبیں سائی کرتا وہاں پر دھرے پھولوں کے انبار سے مٹھی پر پھول لیکر قبر میں چڑھکتا اور رو رو کر فریاد کرتا یہ منظر میرے لئے بلکہ ہر صحیح العقیدہ کیلے قابل ترس تھا ،۔ بھلا قبر والا تھا خود محتاج ہے پھر اس سے مرادیں کیسی۔۔۔۔ میں سیدھے داخل ہوکر قبر کے سرہانہ فاتحہ وغیرہ پڑھ کر وہاں سے نکل گیا اس دوران میری طرف نگاہیں کچھ عجیب سی کیفیت لئے اٹھ رہی تھیں میں کسی کی پرواہ کئے بغیر وہاں سے نکل گیا ، مسلمانوں کی اس حالت زار کو دیکھ کر دل افسردہ تھا لیکن کسی سے کچھ کہا بھی نہیں جاتا،
کون ہیں خسرو
آپ نظام الدین اولیا کے چہیتے مرید اور مشہور خلیفہ ہیں جو فارسی اور اردو کے صوفی شاعر اور ماہر موسیقی کار ہیں۔ وہ طوطی ہند کے نام سے مشہور ہوئے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر انہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے۔ ان کے آبا و اجداد ترک تھے۔ وہ 1253ء میں پٹیالی، آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ہندوستانی تھیں۔ امیرخسرو نے سلطنت دہلی (خاندان غلامان، خلجی اورتغلق) کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ انہوں نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قوال اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ وہ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم ستون ہیں۔ اور اہم ساز، طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد تصور کیے جاتے ہیں اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے،
1286 میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اور خواجہ صاحب نے خاص ٹوپی جو اس سلسلہ کی علامت تھی خسرو کو عطا کی تھی اور انہیں اپنے خاص مریدوں میں داخل کر لیا تھا۔ بیعت کے بعد خسرو نے اپنا سارا مال و اسباب لٹا دیا تھا۔ اپنے مرشد سے ان کی عقیدت عشق کے درجہ کو پہنچی ہوئی تھی خواجہ صاحب کو بھی ان سے خاص لگاؤ تھا۔ کہتے تھے کہ جب قیامت میں سوال ہو گا کہ نظام الدین کیا لایا تو خسرو کو پیش کر دوں گا۔ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر ایک قبر میں دو لاشیں دفن کرنا جائز ہوتا تو اپنی قبر میں خسرو کو دفن کرتا۔ جس وقت خواجہ صاحب کا وصال ہوا خسرو بنگال میں تھے۔ خبر ملتے ہی دہلی بھاگےاور جو کچھ زر و مال تھا سب لٹا دیا اور سیاہ پوش ہو کر خواجہ کی مزار پر مجاور ہو بیٹھے چھ ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا اور مرشد کے قدموں میں دفن کئے گئے، برابر اس لئے نہیں تا کہ آگے چل کر دونوں کی جداگانہ قبروں کی شناخت میں مشکل نہ پیدا ہو۔
باقی اگلی قسط میں،