نظم اور تنظیم

ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

اے خاصئہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے

ملت اسلامیہ میں منظم، منصوبہ بند، متواتر اور مسلسل اجتماعی کاموں کے لیے long term planing, شورائ نظام،باضابطگی، باقاعدگی، پیہم سعی، کیڈر بیس آرگنائزیشن کا رجحان بہت کم ہے۔ جو لوگ کسی وقتی جذبات سے اٹھ کر کچھ ہنگامی کام کرنا چاہتے ہیں ان میں بھی اطاعت امرومامورین کی ذمّہ داری کا فقدان ہے ۔دراصل ہم نظم میں جڑ کر رہنے اور صبر کے ساتھ لمبی مدت تک نتیجے کا انتظار کرنے کی بجائے فوری نتیجے کے قائل اور روادار ہیں۔ہم اپنی انا کو فنا کیے بغیر چاہتے ہیں کہ ایک صالح اجتماعیت برگ وبار لائے۔اور ہمیں کامیابی حاصل ہو۔
“قوموں کو نہ مسائل زندہ رکھتے ہیں نہ وسائل ۔ان کی زندگی ان کے اعلیٰ مقاصد سے وابستہ ہوتی ہے۔ جو قوم اپنے مقصد حیات کو فراموش کر بیٹھے اس کی بقا کی ساری جدوجہد ناکام ہوجاتی ہے،۔”
کئ انجمنیں، کمیٹیاں، مجلسیں، وفاق، آرگنائزیشن ،ادارے بنتے اور بہت جلد بکھراؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔مستقل، متواتر، اور متوازن جہتوں میں کام کے لیے ٹیم کے ہر فرد کو ٹیم اسپرٹ کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قربانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے- اپنے مفادات کے لیے شامل ہونے والے اس کے داخلی نظام کو برباد تو کرتے ہی ہیں ساتھ ساتھ اس کے تنظمی ڈھانچے اور قیادت کو بھی بے بنیاد شک، بد گمانی، چغلی، کُھسر پھسر، سرگوشیاں، تنگ دلی، نجویٰ ،انتہاپسندی،ضعف ارادہ، کام نہ کرنے کے لیے جھوٹے عذرات اور بے بنیاد بہانے۔نفاق کے درجے میں کھڑا کر کے اسے توڑکر ہی دم لیتے ہیں ۔ ایسا کر کے وہ اپنی پیٹھ تھپتھپا تے ہیں کہ
لو آج ہم نے وہ کام کر ہی دیا جس کے لیے شیطان بے بس تھا۔

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دین

1857 اور1947 کے بعد کا ملّت کا منظر نامہ اور اس کی تاریخ دیکھیے۔ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ دو صدیوں میں ہم کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئے ہیں۔

خرد کہتی تھی رک جاؤ بہت نازک زمانہ ہے
سفینہ کو مگر طوفاں سے تکرا دیا تو نے

اگر یہ واقعہ ہے مذہب اسلام زندہ ہے
تو پھر کیا ڈر تو زندہ تیرا پیغام زندہ ہے

ہم اگر کچھ کرسکتے ہیں تو اپنے اخلاق وکردار کی تعمیر ہے۔اپنے راسخ عقیدے پر جمے رہنا، استحکام، استقلال اور اس کی تبلیغ،تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس ہے۔ ملی اتحّاد و اتفّاق ،اخوت و محبت، عمدہ سیرت وکردار، صبرواستقامت، حکمت، رواداری اور احترام ہے۔ وقت کا درست استعمال اور اپنے مال کو انتہائی ضروری کاموں میں صرف کرنا ہے۔کفایت شعاری کرنا اور اصراف ودکھاوے سے بچنے کی کوشش ہے۔بے جا رسم ورواج کی بجائے مستند کی تلاش اور عمل ہے۔ جذباتیت اور وقتی اقدام کے بجائے عملیت پسندی اور منصوبہ بندی ضروری ہے ۔
تعداد کی بجائے کیفیت quaility پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔خوابوں کے آسمان کے بجائے حقیقت پسندی کی زمین پر توجہ دیناہے۔

ہمّت سے کام کرتا رہ اور دین دار رہ
امیدوار رحمت پرور دگار رہ

ایمان والوں کا حامی و ناصر الله ہے اور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں (محمد۔11)

اس وقت ملی شعور، احتیاط، دعوت، مل جل کر کام کرنا، باہم سیسہ پلائی دیوار بن کر اتحاد کا عظیم مظاہرہ کرنے اپنے جماعتی، مسلکی، گروہی تعصبات واختلاف کو پرے رکھ کر قرآں کی بنیاد پر منظم، منتظم، متحد ہونے اور باہم برداشت، رواداری،مشاورت، ایثار و قربانی، درگزر، تنقید بغرض اصلاح اور ایک دوسرے کو Motivet کرنے اور پر امید رکھنےکی ضرورت ہے ۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور ہم خار ہوئے تارک قرآں ہو کر

پائیدار تعمیر ی کام منظم سعی کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس جدوجہد میں سب کو شا مل ہوجانا چاہیے۔جو لوگ پہلے سے میدان میں کام کر رہیے ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ان کےدست وبازو بن کر کارواں کے ساتھ اپنی صلاحیت اور وسائل کے ساتھ عملی جدوجہد میں حصہ لیں۔اگر ان کے کام سے مطمئن نہ ہوں تو خود آگے بڑھ کر ان سے بہتر، مظبوط اجتماعیت کا نمونہ پیش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے