ازقلم: سمیع اللہ خان
تازہ ترین خبروں کےمطابق گجرات سرکار نے یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ لیا ہے،
یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے پورے ملک میں ایک قانون کی تشکیل ہوگی، جو شادی، طلاق، نان نفقہ، وراثت اور گود لینے جیسے اہم معاملات میں تمام مذاہب و عقیدوں کے پیروکاروں کے لیے یکساں طور پر نافذ کیا جائے گا یعنی ایک ملک اور ایک قانون کا نظریہ، جو شہریوں سے ان کے مذہبی حقوق چھین لےگا،
بنیادی طور پر ایک ملک میں تمام شہریوں کے لیے یکساں قوانین کا یہ خاکہ انگریزوں نے پیش کیا تھا لیکن برطانوی عہد میں بھی یکساں قوانین کا یہ خاکہ مجرمانہ معاملات تک ہی محدود رہا تھا، جیسے کہ انڈین کرمنل کوڈ، انگریزوں نے بھی یونیفارم کوڈ کے تحت مذہبی معاملات کو چھیڑنے کی جسارت نہیں کی تھی،
آزادی کے بعد سے یونیفارم سول کوڈ کا نعرہ ہندوستان میں آر ایس ایس کے سَنگھی ہندوراشٹر کے منشور کے طورپر جانا جانے لگا، سَنگھ کے ہندوراشٹر کے ترجیحی ایجنڈوں میں سے ایک یونیفارم سول کوڈ کا نعرہ رہا ہے، معنوی طورپر دیکھا جائے تو یونیفارم سول کوڈ کی زد میں صرف مسلمان نہیں آتےہیں بلکہ ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی آتے ہیں، لیکن موجودہ حالات میں کیا اب ہم ان معنوی اور تکنیکی پیچیدگیوں کے سہارے مطمئن ہوسکتےہیں؟ _ شہریت ترمیمی قانون کی زد میں صرف مسلمانوں کو لانے کے لیے امیت شاہ کی لیڈرشپ میں کس طرح شہریت ترمیمی بل منظور کرایاگیا وہ ہم سب کے سامنے ہے
یاد رہنا چاہیے کہ، بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کےحق میں صرف سَنگھی نعرے نہیں ہیں بلکہ آئینی کتاب میں چور دروازے اور شاہ بانو کیس سے لے کر کئی مقدمات میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کی سفارشات بھی ہیں، اور آئینی اداروں کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی یہ سفارشیں بیشتر مسلمانوں کے ہی مقدمات کے تناظر میں کی گئی ہیں یہ بھي اہم پوائنٹ ہے،
گوا کے علاوہ اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے بعد گجرات سرکار کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی عملی کارروائیاں تشویشناک ہیں، گرچہ گجرات الیکشن کے قریب آنے کی وجہ سے اس کا اقدام کا الیکشنی سیاست سے خاصا تعلق ہے لیکن یاد رہے کہ بابری مسجد پر رام مندر کی تعمیر سے لے کر طلاقِ ثلاثۃ کےخلاف قانون سازی کے ہندوتوا نعروں کو بھی ایک وقت تک مسلمانوں نے الیکشنی سیاست سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی، الیکشنی سیاست میں ہندوﺅں کو رجھانے کے لیے اٹھائے جانے والے یہ اقدامات ہی آگے چلکر عملی طورپر مرتب ہوں گے، بھاجپا اپنی ریاستوں میں ایک کےبعد ایک جس طرح یونیفارم سول کوڈ کے لیے راہیں ہموار کررہی ہے اسے نظرانداز کرنا بڑی بھول ہوگی،
بلاشبہ یونیفارم سول کوڈ کے نام پر مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن میں آنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ناہی اس ہندوتوا جِن سے خوف کھانے کی حاجت ہے، بلکہ اسے ہندوستان میں بسی ہوئی سینکڑوں اقوام کا، مسئلہ بنانے کی حکمتِ عملی درکارہے، یونیفارم سول کوڈ بنیادی طورپر شخص کے مذہبی رشتے اور شرعی قوانین سے اس کے تعلق کو توڑنے کا کام کرےگا، اور دستور ہند میں صرف مسلمانوں کے معاشرتی قوانین منظور نہیں ہیں بلکہ عیسائیوں اور ہندوﺅں کے بھی پرسنل لاز ہیں، اور اس ملک میں سینکڑوں معاشرتی و خاندانی پرسنل لاز موجود ہیں، لیکن یہ تنوع اور کثیرالجہتی بنیادیں یونیفارم سول کوڈ کی لڑائی میں مسلمانوں کے لیے تبھی کارآمد ہوسکیں گی جبکہ اُن کی لیڈرشپ یونیفارم کوڈ کے اس مسئلے کو تمام اقوام کا مسئلہ بنانے میں کامیاب ہوں گی، یہ کام محض بیانات جاری کرنے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ہندوستان میں بسنے والی ایک ایک قوم کی مذہبی قیادت سے اعلیٰ سطحی طورپر ملنا ہوگا اور یونیفارم کوڈ کےخلاف ان کی ذہن سازی کرنی ہوگی، تدبیریں خطرات کو ہنگاموں کےبغیر ٹال دیا کرتی ہیں، لیکن یہ تدبیریں تبھی ممکن ہیں جب ان خطرات کو سنجیدگی سے لیا جائے، بہت بڑی مصیبت یہ ہےکہ کسی بھی مسئلے پر اب ہمارے یہاں یا تو انتہائی خوف کی نفسیات کا مظاہرہ ہوتاہے یا تو انتہائی لاپرواہی کا کہ فکر نہ کرو، کچھ نہیں ہوگا۔