تحریر: نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب
گلف اور دوسرے ممالک میں مسلم این آر آئی ایز نے بہت ساری تنظیمیں، سوسائٹیاں اور پروفیشنل نیٹ ورک بنارکھے ہیں جو امختلف میدان کے علاوہ تعلیم کے میدان میں بھی کام کررہی ہیں، سبھی کی خدمات اپنی اپنی جگہ پر قابل ستائش ہیں، ان میں کچھ کمیاں بھی ہیں اور کچھ تنظیمی نقائص بھی مگر انکی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر بہار اور جھاڑکھنڈ کے کچھ نوجوانوں نے مل کر تعلیم کے میدان میں جو کچھ کر دکھا یا ہے وہ سچ مچ ایک ایسا نمونہ ہے جسے اپنے ملک کے ہر صوبہ میں نوجونواں کو کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات ہے 1999کے مارچ کی جب بہار کے کچھ نوجوا ن انجنئر شکیل احمد کی قیادت میں یو اے ای میں سر جوڑ کر بیٹھے کہ اپنے وطن عزیز میں جو غربت، بے روزگاری اور ہر شعبہ میں جوپسماندگی ہے اسے کیسے ختم کیا جائے؟۔ہم لوگ تو گلف میں معاش کی وجہ سے قیام پذیر ہیں، اپنے وطن جاکر تو کچھ نہیں کرسکتے، مگر یہاں رہتے ہوئے ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے۔ ان کی یہ سوچ تھی کہ زکات اور خیرات کسی قوم کی فوری پریشانیوں کو دور توکرسکتی ہے مگر ان کی بدحالی دور نہیں کرسکتی۔اگر کسی قوم کی حالت بدلنی ہے تو اسے تعلیم دینا ہوگی۔ اگر کسی خاندان کو غریبی کے دلدل سے نکالنا ہے تو اسے تعلیم کے راستے پر چلانا ہوگا۔ گر کسی ایک گھر کا کوئی لڑکا تعلیم یافتہ بن جائے تو اس کے گھر کی بدحالی خود بہ خود دور ہوسکتی ہے۔
مگریہ کام کیسے کیا جائے؟ چنانچہ صوبہ بہار اور جھاڑکھنڈ کے ان نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک گروپ بنایا جائے اور اپنی بساط بھر جو کچھ بن سکے وہ کیا جائے۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اسی سوچ کے تحت اپنے حصہ کی شمع جلانے کے لئے انجنئر شکیل احمد کی قیادت میں اس گروپ نے1999ء سے سے کام کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلے بہار جھاڑکھنڈ میں جو نوجوان کام کی تلاش میں تھے انکی مدد کی شروعات کی گئی۔ اسی طرح غریب ونادار خاندانوں کی مالی معاونت سے کام کا آغاز ہوا۔ چند سالوں بعد 2004ء میں ایک یاہو گروپ تشکیل دی گئی جس سے بہار اور جھاڑکھنڈ کے دوسرے ممالک کے بھی این آرآئیز جڑنے لگے۔ اب امارات کے ماڈل پر گلف کے دیگر ممالک میں بھی لوگ ایک گروپ کی شکل میں کام کرنے لگے۔ داراصل یہ پروفیشنل افراد کا ایک ایسا نیٹ ورک بن گیا جو اپنی قوم کے لئے کچھ کرنے کے جذبہ سے سرشار تھا اور کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا تھا۔ صرف چند سالوں میں بہار اور جھاڑکھنڈ کے سیکڑوں این آر آئیز اس نیٹ ورک میں شامل ہوگئے اور سبھوں نے اپنے اپنے ملک میں ایک گروپ تشکیل دیکر کام کرنا شروع کیا۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں بہارانجمن کے چیپٹر قائم ہوگئے۔
اس وقت بہار انجمن کے چیپٹرس ٹورنٹو، کالیفورنیا، شکاگو، دبئی، مسقط، ریاض، خبر، جدہ کے علاوہ علی گڑھ، دلہی اور پٹنہ وغیرہ میں قائم ہوچکے ہیں۔
بہار انجمن کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ہر چیپٹر آزادانہ طور پر ملی، فلاحی اور تعلیمی میدان میں کام کرتا ہے، اس کا کوئی اکاونٹ نہیں ہوتا،۔ بلکہ ہر ملک میں ایک گروپ ہے جو پروجکٹ اور ضرورت کے حساب سے فنڈ کا اعلان کرتا ہے، سبھی لوگ اس فنڈ کی مالی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بڑا سے بڑا کام انجام پزیر ہوجاتا ہے۔
یوں تو بہار انجمن کے پلیٹ فارم سے اس کے سارے چیپٹرس آزادانہ طورپر بہت سارے ملی، فلاحی اور رفاہی کام کرتے رہے ہیں جیسے غریب لڑکیوں کی شادی، بیوہ اور یتیموں کی مالی امداد، بیمار اور بڑے امراض میں مبتلا غریب لوگوں کا علاج، جاڑے میں کمبل کی تقسیم، سیلاب اور آفتوں میں ہنگامی امداد وغیرہ وغیرہ، اس کے علاوہ سمستی پور میں ایک اسکول کم مدرسہ لڑکیوں کے لئے اور ایک آی ٹی آئی بھی چلایا جارہا ہے۔ مگر جو چیز بہار انجمن کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے تعلیمی میدان میں یونک خدمات۔ تعلیمی میدان میں اس کے تین اہم پروجکٹس ہیں
۱۔ رہبر کوچنگ سنٹرس: بہار انجمن کے مختلف چیپٹرس اس وقت ستائیس کوچنگ سنٹرس بہار اور جھاڑکھنڈ میں چلارہے ہیں۔ جس میں وو ہزار سے زائد اسٹوڈنتس پڑھ رہے ہیں۔
۲۔(One Teacher School -OTS) ون ٹیچر اسکول: جو بچے اسکول چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتے ہیں یامعاشی کمزوری کی بناء پر کام کرنے لگتے ہیں ان کے لئے ون ٹیچر اسکول کا انتظام کیا گیا ہے، بہار انجمن کے بیشتر چیپٹرس ون ٹیچر اسکول کو اسپانسر کرتے ہیں۔
۳۔ ڈپلوما پروجکٹ: اس کے تحت انتہائی غریب فیملی کے کسی بچے کو انجنئر بنایا جاتا ہے۔ خاص طور پر ڈپلوما ان انجنئرنگ میں ایڈمیشن دلایا جاتا ہے، گروپ کے لوگ ہر سال ایڈمیشن کے وقت غریب اور نادار طلباء کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انکا ایڈمیشن کسی انجنئرنگ کالج میں کرادیتے ہیں اور انکی فیس اسپانسر کرتے ہیں جو ڈائرکٹ کالج کو ادا کی جاتی ہے۔ جس کی رقم ماہانہ تین ہزارہے۔ تین سال کے اندر ایک غریب بچہ انجینئر بن کر اس لائق بن جاتاہے کہ وہ زکات لینے والے کے بجائے زکات دینے والا بن جائے، اس کی فیملی غربت سے اٹھ جاتی ہے اور ایک گھر خوشحالی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ اسکی شروعات 2010 میں صرف آٹھ بچوں سے کی گئی تھی۔ ہر سال تعداد بڑھتی رہی اور 2021 تک بہار انجمن نے بہار اور جھاڑکھنڈ کے گیارہ سو چالیس بچوں کو اپنے خرچ پر انجنئیر بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ان میں نوے فیصد بچوں نے ڈپلوما ان انجنئرنگ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے بی ٹک اور پارامیڈیکل کورسزبھی کیا ہے۔یہی نہیں کہ انکو انجنئر بناکر چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ بہار انجمن ان کو گلف یا ہندوستان میں کہیں نہ کہیں انھیں نوکری دلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے۔ اس طرح اب تک گیا رہ سو چالیس خاندانوں کو بہار انجمن نے زکات لینے والے کی کیٹیگری سے نکال کر زکات دینے والوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ اس میں کوئی بھی حصہ لے سکتا ہے، آپ ایک غریب بچے کے ڈپلوما انجنئرنگ کا اسپانسرشپ لے لیں ہر ماہ کالج کو فیس ادا کریں اور وہ بچہ تین سال بعد انجنئر بن کر نکل جائگا اس طرح آپ اپنی قوم کی ترقی میں حصہ لے سکتے ہیں۔
نہ کوئی بورڈ، نہ کوئی کونسل اور نہ ہی کوئی فوٹوبازی اور نہ شہرت کی لالچ۔ بس قوم کے لئے کچھ کرگذرنے کی چاہت۔ اسے صحیح معنوں میں خلوص اور قوم کے لئے درد نہ کہیے تو اور کیا کہیے!
آپ بھی بہار انجمن کے پلیٹ فارم سے قوم کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ کسی بچے کو تین سال میں انجنئر بنادیجئے
۔ یا اپنے علاقہ میں کوئی کوچنگ سنٹر کھول لیجیے، یا ون ٹیچر اسکول کے پروگرام کے تحت اپنے علاقہ میں ان بچوں کی تعلیم کا انتظام کرلیجئے جو بچے اسکول ڈراپ آوٹ ہو جاتے ہیں۔
ایک مختصر مدت میں بہار انجمن نے تعلیم کے میدان میں جو عملی اور پریکٹیکل نمونہ پیش کیا ہے اسے ہر صوبہ میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔