خلفاے عالی مقام: ایک صدی کی شخصیات کا آئینہ

ازقلم: عین الحق امینی قاسمی
ناظم معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:یعنی اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ( تقوی اختیار کرو ) اور سچوں کے ساتھ رہو ( اولیاءکاملین کی صحبت اختیار کرو ) اسی طرح فرمایا :خبر دار ! اللہ تعالی کے نیک بندوں پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔سورہ یونس ،آیت نمبر 62) مشہور محدث سفیان ابن عیینہ فرماتے ہیں کہ: صلحاءاور نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے(مقدمہ ابن الصلاح) کسی عربی شاعر نے کہا ہے:

احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یر ز قنی صلاحاً

یعنی میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں ، حالانکہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔شاید کہ اللہ تعالی مجھے نیکی کی توفیق دے دے ۔

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند

یعنی نیک آدمی کی صحبت تجھے نیک بنادے گی اور برے شخص کی صحبت تجھے برا بنا دےگی۔
بعض اساتذہ سے سنا ہے کہ اگر کسی اہل دل ، اللہ والےسے ملاقات وزیارت کی نوبت نہ آسکی ہو مگران کی طرف دل مائل ہو اور ان کے احوال واذکار پر اطمینان ہو تو بغیر بیعت ہوئے بھی ان کی کتابوں ،اصلاحی تحریروں اور ان کے ملفوظات سے اللہ پاک طالب کو طاعت وبندگی پر جمنے اور نواہی ومنکرات سے بچنے کی توفیق بخش دیتے ہیں۔
ہمارے ماضی قریب میں معرف بزرگ ،اہل دل ، عارف باللہ ،مخدوم العلماءجامع شریعت و طریقت ،باکمال محدث ،مرشد، فقیہ الامت اور نکتہ سنج وابوالفضل حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ ؒمفتی اعظم ہند گذرے ہیں ،جن سے طویل عرصے تک گویا ایک صدی کی شخصیات نے علمی ، سماجی،اصلاحی ،دینی شرعی اور روحانی جہات سے فیض پایا ،آپ کے دادا جان حاجی خلیل احمد مرحوم قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒسے بیعت تھے جب کہ آپ کے والد مولانا حامد حسن صاحبؒ ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒکے دست گرفتہ تھے ، حضرت فقیہ الامت کا سلسلہ نسب محض پینتیس واسطوں سے میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔

ایں سعادت بازور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

خودحضرت فقیہ الامت ؒ کو محدث زمانہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒسے خلافت حاصل تھی ،آپ نے مظاہرعلوم سہارن پور اور دارالعلوم دیوبند دونوں سرچشموں سے علمی استفادہ بھی کیا تھا اور علمی تبحر و دقیقہ سنجی سے دونوں عالمی درسگاہوں کے خوشی چینیوں کو مدتوں فیضیاب بھی فرمایا ہے۔دنیا بھر میں جہاں آپ کے قابل قدر بوریہ نشیں ہزاروں شاگرد رشید پھیلے ہوئے ہیں وہیں ملک و بیرون ملک سوسے زائد کی تعداد میں آپ کے روحانی فیض یافتہ خلفاءعالی مقام بھی علم وذکر اور روحانیت کی راہ سے خانقاہوں میں بیٹھ کر دلوں کو گرمانے اور ہزاروں قلوب کو صیقل کرنے کا کام آج بھی کررہے ہیں۔دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فقیہ الامت کے خلفاءومجازین میں فقیہ ،محدث ،مدرس ،ادیب ،مؤ رخ اور دن کے راہب تو رات کے شہ سوار جیسی مختلف صفات کے حامل آفتاب و ماہتاب اورقندیل رہبانی و روحانی اشخاص اوراہل اللہ رہے ہیں ،جن میں سے بعض داعی اجل کو لبیک کہہ چکے تو بعض اللہ کی زمین پر آج بھی بزم آرائی کر بیعت توبہ کے بہانے جام و سبو لٹا رہے ہیں۔

زیر نظر کتاب “خلفاءعالی مقام” کے مطالعہ سے حضرت فقیہ الامت کے خلفاءومجازین کی نرم و گرم زندگی اور خلوت وجلوت کے احوال وآثار ،زہدو ورع ، تدریس وتبلیغ،جلال وجمال ،طاعات ومجاہدات،افکار واخلاق ،سنت وشریعت پر استقامت اور زندگی کے نوع بنوع کارناموں سے کبھی آنکھیں آبدیدہ ہوتی ہیں تو کبھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اوریقینی احساس ہوتاہے کہ آزمائش وابتلا ،فقروقناعت اور عسرت وتنگ دامانی میں ثبات استقامت اورخالق کی رضا و خوشنودی کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے ؟ ملت کے لئے انفرادی واجتماعی خدمات کو زندگی کے کن اصولوں کی روشنی میں انجام دینی ہے ،تقوی ودیندارانہ اوقات گذارنے کے لئے جو مرکزی کردار سیرت وسنت میں ملتا ہے اس سے ہمارے ماہ وسال اور شب وروزکس طرح متصف ہوسکتے ہیں ، مشکل سے مشکل حالات میں بھی دین اور دینی خدمات پہ قائم رہ کر کامیابیوں سے ہم کنار ہونا ،اللہ کے فضل پر کامل یقین کے ساتھ سنت وشریعت کی تبلیغ کے لئے خود کو فارغ رکھ پانا ،ظاہر ہے کہ یہ اللہ والوں کی صحبت اٹھائے بغیر مشکل ہے ،یہ گتھیاں تب سلجھ پائیں گی جب کسی شیخ وقت کا ہاتھ تھام کر خود کو ان کے حوالے کردیا جائے۔ فقیہ الامت ؒکے درجنوں خلفاءکے احوال کو پڑھ کر دل کی دنیا میں گویا ابال آ جاتا ہے ،یہ کتاب انیکوں ایسے گوشوں کو محیط ہے جسے پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں ،دل کے بند دریچے وا ہوجاتے ہیں ،فکر وذہن میں حق اور سچ کی پاسداری کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔کتاب کے سرسری مطالعے سے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک ساتھ کتاب کی دونوں جلدیں ہر گھر کی ضرورت ہیں ،بلاشبہ کتاب ایسی کہ اسے تکیہ کے برابر میں رکھی جائے ،ہر الماری اور میز کی زینت بنائی جائے ،متعد شخصیات کے تذکرے اور ان کے متنوع احوال وآثار سے کتاب بالیقین انمول ہوگئی ہے جسے پڑھنے کے دوران نہ اکتاہٹ نہ بے چینی ہاں !مگر اپنی کم مائیگی ،بے ثباتی اور بے بضاعتی کا احساس خوب ہوتا ہے۔

سیرت وسوانح کے باب میں یہ کتاب بلاشبہ ایک اہم اضافہ ہے ،پہلی جلد پانچ سو چھتیس صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ،اس میں تقریبا بتیس خلفاءومجازین کو جگہ دی گئی ہے ،جن میں جانشین فقیہ الامت حضرت مولانا محمد ابرہیم صاحب پانڈور افریقی،مولانا مفتی اابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند ،مفتی احمد خان پوری شیخ الحدیث جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل ،شہید منی مفتی محمد فاروق صاحبؒ بانی جامعہ محمودیہ میرٹھ اور قاری عین الحق ؒ نابینا مظفرپور بہار وغیرھم جیسی درجنوں نابغہ روزگار شخصیات کے اسماءقابل ذکر ہیں،بلکہ بعض بعض تو اپنی جگہ مستقل انجمن اور اکیڈمک کی حیثیت رکھتی ہیں۔دوسری جلد پانچ سو چونتیس صفحات پر ختم ہورہی ہے ،اس دوسری جلد میں بھی حضرت فقیہ الامت کے چوالیس خلفاءومجازین کے احوال وآثار کو قلم بند کیا گیا ہے،جب کہ تیسری جلد زیر ترتیب ہے۔پہلی جلد پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ،دارالعلوم ندوہ کے ناظم اعلی مولانا سید محمد را بع حسنی ندوی کے دعائیہ کلمات ثبت ہیں ،اسی طرح مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابو القاسم نعمانی، ،شیخ الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارن پور حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب سمیت ملک کے کئی مرکزی اداروں کے صاحب قلم وصاحب دل نفوس قدسیہ کے تقریظات شامل کتاب ہیں جن سے “خلفاءعالی مقام ” نامی کتاب کی عظمت واہمیت دوبالا ہوگئی ہے۔کتاب ظاہری وباطنی خوبیوں سے مالامال ہے ،سرورق انتہائی دیدہ زیب ،کاغذ وطباعت نہایت عمدہ ،کتاب ایسی کہ پہلی نظر میں ہی پالینے کا اشتیاق بڑھتا ہے۔دونوں جلدوں کی مجموعی قیمت کاغذ وطبات کی گرانی کے باوجود صرف چھ سو روپے رکھی گئی ہے جو جامع مسجد امروہہ اور مکتبہ العافیہ آمروہہ یوپی کے علاو ¿ہ دیوبند وسہارن پور کے کتب خانوں اور مو ¿لف موصوف کے اس نمبر 9411244695 پر رابطہ کر بسہولت حاصل کی جاسکتی ہے۔

خلفاءعالی مقام کے فاضل مرتب ،درس وتدریس کے ماہر ،صاحب قلم ،زود نویس و خوب نویس ،جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کے مفتی واستاذحدیث حضرت مولانا مفتی ریاست علی قاسمی صاحب ہیں،باصلاحیت جید عالم دین اور ممتاز فاضل دارالعلوم دیوبند ہیں۔ اترپردیش کے ضلع رام پور سے وطنی تعلق ہے ،مبداءفیاض نے لکھنے پڑھنے کا خاص ذوق بخشا ہوا ہے ،ان کا قلم رواں ہے ، مطالعہ وسیع ہے ،مشکل سے مشکل موضوع پر کم وقتوں میں لکھ پڑھ کر پیش کردینے کا فن انہیں خوب آتا ہے ،اب تک متعدد کتابیں آپ کے گہر بار قلم سے منصہ شہود پر آ چکی ہیں ،جب کہ مضامین و مقالات کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے اور مختلف مرحلوں میں ملک کے رسائل وجرائد میں شائع بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کام کے دھنی ہیں ، خاموشی کے ساتھ ذمہ داریوں کو تھوڑے وقتوں میں پورے سولہ آنہ انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ،سادگی پسند ہیں، چھَپنے سے زیادہ چھُپنے کا مزاج ہے ، اور اہل علم میں سادے لوگوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں،قلم کی طرح اُن کی زبان بھی تعمیری، اخلاقی واصلاحی موضوعات پر اپنا واضح اثر رکھتی ہے ۔

بزرگوں کے تربیت یافتہ ہیں اور بہ طور خاص حضرت فقیہ الامت کی مجالس کے حاضر باشوں میں سے ہیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو بھی اسی روانی سے لکھنے پڑھنے اور سادہ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتے ہیں ، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ قارئین کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ آپ نے کتنے دنوں میں اپنا مضمون مکمل کیا ہے ،ہاں وہ یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ آپ نے کیسا لکھا ہے۔خلفاءعالی مقام کی ترتیب وتالیف میں بھی انہوں نے اس احساس کو سامنے رکھا اور غیر معمولی محنت وجد وجہد کے بعد آپ نے ایک قیمتی تحفہ امت کے سامنے پیش کیا ہے،اہل قلم کو یقینا ً احساس ہوگا کہ کسی بھی شخصیت پر کچھ لکھنا جوئے شیر لانے کے مرادف ہے ،آپ جن کی زندگی پر قلم اٹھانا چاہتے ہیں ،اُن کے بعض اعزاءیا خود اُن سے بنیادی معلومات فراہم کرنے کی درخواست کریں،تو اُن کا حال یہ ہوگاکہ آپ بار بار توجہ دلاتے رہیں ،مگر وہ متعلقہ معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے آپ کی بے چینی کو قطعاً خاطر میں نہیں لاسکتے۔مولف موصوف کو بھی اِن تکلیف دہ مراحل سے مسلسل گذرنا پڑا ہے۔مگرمفتی صاحب زید مجدہ اُمت کی طرف سے قابل مبار ک باد ہیں کہ اِس طرح کے صبر آزماحالات سے گذرنے کے باوجود اُنہوں نے جو سرمایہ محفوظ کیا ہے وہ یقینا قلمی جہت سے آپ کا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ صحت وعافیت کے ساتھ لانبی زندگی بخشے اور الگ الگ پہلوؤں سے آپ کی خدمات کا سلسلہ یوں دراز تر فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے