تحریر: اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
جب عقل و شعور پر غفلت اور کاہلی کے پردے پڑ جاتے ہیں تو ہر چمکنے والی چیز سونا نظر آنے لگتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اندھی تقلید میں مبتلا ہوکر آمنا و صدقنا کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی فطرت میں موجود تحقیق اور جستجو کے جراثیم غذائی قلت یعنی علم و فکر کے فقدان، کے شکار ہو کر یا تو مر جا تے ہیں یا بے اثر ہوجاتے ہیں۔ ہر بات پر آمنا و صدقنا کا مرض اتنا خطرناک ہے کہ اس کی وجہ سے قوموں کی ترقی رک جاتی ہے اور وہ ذلت و رسوائی کی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لئے گم ہوجاتی ہیں۔ ان کی نسلیں غلامی کو قابل فخر، نجات کا راستہ اور آمنا و صدقنا کو وظیفہء حیات سمجھنے لگتی ہیں۔ جب یہ مرض کسی معاشرے میں در آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ معاشرہ بہت جلد دھتکارے ہوئے سماج میں بدلنے والا ہے جس کی حیثیت زرخرید غلاموں سے بھی بد تر ہوگی۔
کتنی تعجب کی بات ہے کہ ہمارے درمیان موجود کچھ لوگ ہمیں مذہب اور دانش کے نام پر بے وقوف بنا نے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ سماج میں ان کا دبدبہ اور رعب قائم رہے اور ہم یہ بات سمجھنا تو دور سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان کے پالتوؤں کی ایک بھیڑ نے ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کا گردان کر کے پورے سماج کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے اور معاشرہ اس گردان سے اتنا سحر زدہ ہوچکا ہے کہ وہ ان کچھ لوگوں کے آگے سر اٹھانے سے بھی کتراتا ہے کہ کہیں اس پر بغاوت اور غداری کا الزام نہ لگ جائے۔ سوال کھڑے کرنے کی مومنانہ صفت جو کبھی ہماری شان ہوا کرتی تھی اور سوال کھڑے کرنے والوں کو سماج اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا ، آج وجہ کلنک ہے۔ سوال کھڑے کرنا آج کے دور میں کسی کربلا سے کم نہیں ہے۔ یزید و شمر کا ایک ٹولہ ہمیشہ ایسے لوگوں کی تاک میں رہتا ہے اور جیسے ہیں کوئی سوال کھڑے کرتا ہے وہ تمام اقسام کے ہتھیار سے لیس ہوکر اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ سماج سے اس کو الگ تھلگ کر کے اس پر غداری اور بغاوت کا الزام لگا کر اس کی اتنی ہجو اُڑاتا ہے کہ وہ بیچارا سب کچھ چھوڑ کر گوشہ نشین ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے یا خود بھی ان کی صفوں میں شامل ہو کر انہیں کی طرح آمنا و صدقنا کا گردان شروع کردیتا ہے۔ عصبیت کے نشے میں چور یزید و شمر کا یہ ٹولہ آج بھی معاشرے پر اپنی چودراھٹ قائم رکھنے کے لئے ظلم و ستم، ناانصافی اور جبر کو کسی بھی حد تک لے جانے سے نہیں ہچکچاتا۔ سوال کھڑے کرنے والوں کے سروں سے عزت و ناموس کی چادریں کھینچ کر انہیں ننگے سر میڈیا اور سوشیل میڈیا کے بازاروں میں گھمانے کی ان کی روش آج بھی اتنی ہی جوان ہے جتنی آج سے چودہ سو سال پہلے شام کے بازاروں میں تھی۔
افسوس ہے کہ معاشرے کا وہ طبقہ بھی جو سمجھ بوجھ رکھتا ہے ان حالات سے بے اعتناء ہوچکا ہے۔ حق پرستوں کی تائید میں ایک لفظ بھی اس کی زبان سے جاری نہیں ہوتا۔ مصلحت کی قبا سے اپنے آپ کو ڈھانپ کر ان پناہ گاہوں میں جا بیٹھا ہے جس کی چابیاں بھی انہی کچھ لوگوں کے پاس رہن ہیں۔ اور یہ کچھ لوگ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ آج سب کچھ انہیں کا ہے، ان کی کسی بھی بات پر سوال کرنا تو دور ان کے آگے کھڑا ہونے کی جراءت والا بھی ان کے حصار بند قلعہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ قدرت نے جب فرعون اور شداد جیسے لاؤ لشکر رکھنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا تو پھر یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ ان کچھ لوگوں کو شاید یہ پتہ نہیں کہ وقت کی آندھی جب تیز چلنا شروع کرتی ہے تو ایسے درختوں کو بھی جن کی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں پیوست تھیں اور جو آسمان چھوکر اپنی بڑائی پر نازاں تھے پل میں زمین بوس کر دیتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ جب ان کا نام و نشان بھی صفحہء ہستی سے اس طرح مٹ جاتا ہے گویا وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ان کچھ لوگوں نے اپنےمفاد اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے معاشرے میں آمنا و صدقنا کے جس مزاج کو ہوا دے رکھی ہے اور جس کو ترقی کا معیار بنایا ہوا ہے وہ دیمک بن کر معاشرے کو تیزی سے برباد کرنے لگا ہے۔ سماج میں سوال اور تحقیق کا رجحان بالکل ختم ہونے لگاہے جو بد بختی کی علامت ہے۔
کاش ہم ان باتوں کو سمجھیں، ان کچھ لوگوں کے بنائے ہوئے مایا جال کو توڑ کر سوال کرنے کی ہمت کرنے والوں کو کھڑا کریں ،ایسے لوگوں کو جو یہ لڑائی جیتنے کے لئے نہیں صرف دنیا کو یہ بتانے کے لئے لڑتے ہیں کہ کوئی میدان میں موجود ہے، نہ صرف کھڑا کریں بلکہ ڈھال بن کر ان کی بھر پور حفاظت بھی کریں، اے کاش اس سے پہلے کہ سب ختم ہوجائے ، ایسا ہوجائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے معاشرے کا ذکر صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ جائے گا وہ بھی عبرت کے لئے۔