مولانا سلمان حسینی ندوی کا شہزادہ محمد بن سلمان کے نام خط

عربی سے ترجمہ: نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

میں سلمان حسینی ندوی،دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنو کا فارغ التحصیل، جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ کا سن 1980 کا پروڈکٹ،شیخ ابوالحسن علی ندوی ؒ کا نواسہ، جن کے سعودی عرب کے اداروں سے بہت مضبوط رشتے رہے ہیں، جیسے الندوہ العالمییہ للشباب الاسلامی وغیرہ، جمعیت شباب اسلام کے صدر اور رابطہ عالم اسلامی کے ممبر، جامعہ امام احمد بن عرفان شہید کے بانی اور ناظم، تعلیمی کمیٹی اور معاہد القرآن الکریم کے ممبرہونے کی حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں۔ میں نے اپنے نانا مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کے ساتھ شاہ فہداور شاہ عبداللہ سے ملاقات کی ہے۔ جنادریہ کے جشن میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ وہاں میری ملاقات امیر نائف اور شاہی خاندان کے دیگر افراد سے بھی ہوچکی ہے۔ جب شاہ فیصل ایوارڈ میرے نانا جان کو دیا گیا تھا اس وقت میں ریاض ہی میں مقیم تھا۔ رابطہ عالم اسلامی کے جس جلسہ میں میرے نانا شیخ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے یاسر عرفات کے سامنے ایک پرجوش تقریر کی تھی اور جس میں انھیں صلاح الدین ایوبی کے رول ادا کرنے کی ترغیب دی تھی، میں رابطہ کے اس جلسہ میں شریک اور حاضر تھا۔ اسی طرح بم دھماکہ کے ایک سال بعد جو وفد رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے امریکہ گیا تھا۔ جس کا مقصد اسلام کا تعارف پیش کرنے اور مملکت سعودی عرب کا دفاع تھا۔ اور جس کی قیادت شیخ عبد اللہ ترکی نے کی تھی اور جس میں دنیا کے مسلم ممالک نے اپنا اپنا نمائندہ بھیجا تھا، اس وفد میں بر صغیر ہندو وپاک کی میں نے ہی نمائندگی کی تھی، اسی طرح سعودی عرب کی وزارت حج اور رابطہ کی طرف سے کئی بار مجھے خادم الحرمین الشریفین کی طرف سے حج کی کانفرنسوں میں شرکت اور حج کرنے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔

جس زمانے میں راقم الحروف سعودی عرب میں بغرض تعلیم موجود تھا وہ دور صحوہ کا دور تھا۔ میرے اساتذہ میں عبد الرحمن البانی، استاذ مناع القطان، استاذ ادیب صالح اور مشہور محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ وغیرہ شامل ہیں۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ سے میر ا خاص تعلق رہا ہے اور میں نے ماسٹر ڈگری کا مقالہ انھیں کی زیر نگرانی مکمل کیا تھا۔ وہ بڑے اچھے دن تھے۔ سعودی عرب ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور اس کی پالیسیاں اسلامی پالیسیوں کا غماز تھیں۔

جب 2011 میں عرب کے مختلف ممالک میں بغاوت کی لہریں اٹھیں، جس نے تونس سے آغاز کرتے ہوئے مصر، لیبیا، یمن اور شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس وقت شاہ عبد اللہ نے اسلام پسند قوتوں کا قلع قمع کرنے، مصر، شام اور یمن میں انکے قتل عام کو سپورٹ کرنے اور اسلام پسند مخالف قوتوں کا ساتھ دینے میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ جس نے ہمارے دلوں کو زخمی اور ہمارے احساسات کو بے چین ومضطرب کردیا۔ مرسی کی حکومت (جو اسلامی حکومت کی طرف پہلا قدم تھا) کا تختہ پلٹنے اور صہیونیوں کے ایجنٹ ملعون سیسی کو حکومت میں لانے، اخوانیوں کے خلاف حوثیوں کی تائید ونصرت اور دشمنان اسلام کی ہر ملک میں معاونت شاہ عبد اللہ نے کی۔ جس کی وجہ سے ہم ان سے متنفر ہوگئے۔ ایسے وقت میں میں نے اسلامی تحریکات کی مدافعت کا بیڑہ اٹھایا اور سعودی پالیسیوں پر شدید ترین تنقیدیں کیں۔ جب شاہ عبداللہ انتقال کرگئے اور آپ کے والد محترم شاہ سلمان نے باگ ڈور سنبھالی، جن سے میری ملاقات اس وقت ہوچکی تھی جب وہ شہر ریاض کے امیر تھے۔ اسی کی دہائی میں ریاض میں انٹرنیشنل بک فیئر کے موقع پر ان سے میری ملاقات ہوئی تھی، اسی طرح شیخ ابوالحسن علی ندویؒ کی بھی جب وہ ریاض کے امیر تھے تو کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ شاہ سلمان نے شاہ عبد اللہ کی تدفین سے قبل ہی بعض امراء اور اہل کاروں کو جس انداز میں خدمت سے سبکدوش کرنے کا اعلان کیا اور نئے تعینات کئے۔ اس سے ہم سب کے اندر بڑی امیدیں جگ گئی تھیں۔ ہم نے ان کے اقدامانت پر انھیں مبارکباد پیش کی اور مملکت سعودی عرب کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعدان سے بڑی امیدیں وابستہ کیں۔ پھر جب انھوں نے آپ کو ولی عہد بنایا، ایک ایسے نوجوان کو جو بلند ہمت، حوصلہ مند اور عربی انگریزی دونوں زبانوں کا ماہر تھا تو ہمیں مملکت سعودی عرب کا مستقبل بہت روشن اور تابناک نظر آنے لگا۔ چونکہ اس سے پہلے کے سلاطین نہ صرف یہ کہ عمر رسیدہ تھے، بلکہ وہ ٹھیک سے اپنا ما فی الضمیر بھی ادا کرنے سے قاصر تھے۔ بلکہ ایک بیان تک صحیح سے پڑھنے پر قادر نہ تھے۔ مگر اے محمد بن سلمان، آپ سے بھی ایسا شدید دھچکا لگاجس نے ہمارے دل ودماغ کو جنھجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب ہم نے یہ سنا کہ آپ صحوہ کو زک پہونچا رہے ہیں۔ ان کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں اور اسلامی بیداری کے ہر نقش ونگار کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف کوشنر اور ایونکا سے دوستی کر رہے ہیں اور ٹرمپ کے سامنے خود کو چھوٹا محسوس کررہے ہیں، صلیبی اور صہیونی طاقتوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں، تو ہماری ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ پھر ہم نے اپنی زبان سے جنگ کا اعلان کردیااور مملکت کی پالیسیوں کی کھلے عام مخالفت شروع کردی اور پھر مملکت کے تمام اداروں جن سے میں منسلک تھا، علیحدہ ہوگیا۔ علماء، نیکوکاروں، ائمہ اور مصلحین کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی خبریں آتی رہیں۔ اس ظلم کے ساتھ ساتھ، سینما کی کھلی عام چھوٹ، عریانیت اور فحش کے پروگرامس بھی منعقد ہونے لگے۔ ڈاکٹر سلمان عودہ کو جیل بھیج دیا گیا، جنھوں نے شاہ عبد اللہ کو اپنے ایک کھلے خط میں چند نصیحتیں کی تھیں اور چند اصلاحات کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ڈاکٹرعلامہ سفر الحوالی، امام حرم شیخ صالح آل طالب اور دیگر جلیل القدر علماٗ اور اسلامی مفکرین کو قید کرلیا گیا۔ چنانچہ میں نے ہندوستان اور عالم اسلام کے علما ء کو آواز دی، امریکہ، کناڈا، افریقہ، ملیشیا، اور انڈونیشیا وغیرہ میں پھیلے ہوئے اپنے تمام شاگردوں کو مملکت کے خلاف آواز بلند کرنے کی ترغیب دی۔ پہلے سلفی علماء میرے پیچھے پڑ گئے اور سعودی عرب کی مدافعت میں ایڑی چوٹی کی زور لگا دی، مگر جب بے قصور لوگوں سے جیلیں بھر دی گئیں، عریانیت اور فحش کی محفلیں سجائی جانے لگیں تو سلفی علماء بھی ذلیل ہونے لگے اور پھر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اسکے بعد اسلام مخالف سعودی پالیسیوں کے خلاف سبھی ایک نقطہ پر متفق ہوگئے۔ یمن، لبنان، شام، عراق، مصر، لیبیا، اور سوڈان میں اسی نوعیت کی پالیسیوں میں مملکت سعودی عرب ملوث تھی۔ مملکت نے حماس، اخوان المسلمین، اتحاد العلماء المسلمین اور یہاں تک کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کیا جو مملکت کے تابوت میں آخری کیل تھی۔

مگر بالآخر شعبان کی برکتوں اور رمضان المبارک میں خدا کی رحمتوں سے مملکت کا ایک نیاروشن چہرہ نمودار ہوا، جب ایران کے ساتھ مملکت سعودی عرب نے دوستی کا ہاتھ بڑھایااور معاہدہ پر دستخط کئے، مذہبی فرقہ بندی کا قلع قمع کیا، عراق، یمن، شام اور لبنان میں مصالحت کی کوششیں شروع کیں، مقاومت کو گلے لگایا اور شیعہ سنی اتحاد میں شامل ہوا جو ترکی اور ایران، پاکستان اور افغانستان کو جوڑتا ہے اور حاسد صلیبییوں، اور ظالم صہیونیوں اور امریکی اتحاد سے نکلنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ایران، یمن، عراق اور شام میں سعودی وفود گئے، حماس، ایران اور یمن کے وفود حرمین شریفین میں آئے اور ریاض پہونچے، ہم آپ کو اس جرئتمندانہ اور بہت سے لوگوں کو چونکادینے والے اقدامات پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ آپ ابھی جوان ہیں، بلند ہمت ہیں، ہم آپ کو نئے صلاح الدین ایوبی کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ عمر بن عبد العزیز کے دور کو واپس لائیں، پہلے سعودی گھرانہ کو پاک کریں، مسلمانوں کے بیت المال کے محافظ بنیں، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہم سب اہل سنت ہیں۔ مگر شیعہ سنی کے درمیان کوئی تفریق پیدا کرنا روح اسلامی کے خلاف ہے۔ ہم سب کے سب مسلمان ہیں۔ فرقہ بندی مکروہ عمل ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن پاک کا حکم بہت واضح، صاف اور سخت ہے۔

(واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا۔۔۔۔ ولا تکونوا کالذین تفرقواواختلفوا من بعد ما جاۂم البینات، واولئک لہم عذاب الیم)اسی عزیمت اور ارادہ کے ساتھ آپ تیار ہوں، آپ ابھی ولی عہد ہیں، پھر آپ مملکت سعودی عرب کے بادشاہ بنیں گے، تو آپ عدل وانصاف قائم کرنے والے بادشاہ بنیں۔ عید سے پہلے (اور اسی لیئے جلدبازی میں یہ خط میں تحریرکررہاہوں) ان بے قصور اور مظلوم علماء کی رہائی کا حکم صادر فرمائیں جو سلاخوں کے پیچھے ہیں۔، وہ صرف مملکت سعودی عرب کے علماء نہیں بلکہ پوری امت اور عالم اسلام کے علماء ہیں۔ جب ایسا آپ کریں گے تو امت کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں گے۔دعا ہے کہ یہ عید سبھی لوگوں پر خوشیاں اور شادمانی، امن وامان اور خوشحالی اور خوش خبریوں کے نغمے اور فتح مبین کے زمزمے کے ساتھ وارد ہو۔ اور یقینا ہمارے ہی لشکر کو فتحمندی وکامرانی حاصل ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالی آپ کو اپنی رضا اور خوشنودی کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ،،،

سلمان حسینی ندوی

(نوٹ: مترجم کا خط کے مواد سے اتفاق ضروری نہیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے