ازقلم: محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
موت ایک اٹل حقیقت جس سے کسی کو مفر نہیں،اس دنیا میں جنم لینے والی ہر شے کا مقدر فنا ہے، کسی کو بھی یہاں دوام نہیں، ہر آنے والی صبح اور ڈھلتی ہوئی شام ہمیں یہی خبر دیتی ہے، آنے جانے کا یہ سلسلہ روز اول سے ہی جاری ہے، لیکن انہیں جانے والوں میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے جانے سے آنکھیں اشکبار اور دل بے قرار ہوجاتا ہے. آج ہمارے درمیان سے قوم و ملت کا کمیاب گوہر، عالمی شہرت یافتہ
معروف عالم دین، دارالعلوم وقف دیوبند کےقدیم استاذ، خانوادہ قاسمی کے سچے ہمدرد، قابل خطاط، اردو و عربی کے نامور ادیب، مصنف، مدیر، محدث، مفسر، مرتب، مفتی، مولانا محمد اسلام قاسمی طویل علالت کے بعد 16 جون 2023ء بروز جمعہ، صبح تقریباً 8 / بجے 70 سال کی عمر میں، اپنے مکان، محلہ خانقاہ، دیوبند میں اللہ کو پیارے ہو گئے. انا للہ و انا الیہ راجعون، آپ کے سانحہ وفات کی خبر نے علمی حلقوں کی فضا کو پوری طرح مغموم کردیا، آپ کی عمر تقریباً 70؍ برس تھی ۔مولانا مرحوم کے انتقال کی خبر سے دارالعلوم وقف دیوبند، دارالعلوم دیوبند، صوبہ جھارکھنڈ، و بہار سمیت، طلباء مدارس ،اساتذہ کرام، علماء عظام کے ساتھ ملک و بیرون ملک میں پھیلے فکر قاسمی سے وابستہ افراد اور عوام میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی، اور جن کے لئے ممکن ہو سکا آپ کی آخری زیارت کے لئے دیوبند میں لوگوں کا تانتا لگ گیا۔اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے دیوبند پہنچ کر رات 10 بجے احاطہ مولسری دارالعلوم دیوبند میں نماز جنازہ میں شرکت کی اور نم آنکھوں سے دیوبند کی مشہور قبرستان “مزار قاسمی” میں سپرد خاک کر دیا. انا للہ وانا الیہ راجعون. مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب اس وقت ملک کے نامور، صف اول کے علماء میں شمار کئے جاتے تھے، آپ 16 فروری 1954ء کو ضلع دمکا، (موجودہ جامتاڑا) جھارکھنڈ کے راجہ بِھیٹا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی ناظرہ اور فارسی کی تعلیم، اپنی نانیہال یعنی ضلع دمکا، بہار کے موضع بِھٹرا (جو اب ضلع جامتاڑا، جھارکھنڈ میں آتا ہے) میں مولانا محمد لقمان دمکاوی رحمۃاللہ علیہ جو اس وقت پورے علاقے کے واحد عالم دین تھے کے پاس حاصل کی، اس کے بعد آپ نے 1962ء میں جامعہ حسینیہ، ضلع گریڈیہ میں داخلہ لے کر وہاں فارسی، اول و دوم عربی اور ابتدائی انگریزی پڑھی، جہاں پر ان کے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد ایوب مظاہری، حضرت مولانا عبد الحق اعظمی رحمۃاللہ علیہ جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث ہوئے ، مولانا بلال احمد بھاگلپوری، مولانا محمد ابراہیم مفتاحی اور مولانا محمد عباس چتراوی رحمۃاللہ علیہ شامل تھے. اس کے بعد ایک سال مدرسہ اشرف المدارس، کُلٹی، ضلع بردوان، مغربی بنگال میں رہے، وہاں انہوں نے قافیہ، قدوری، اصول الشاشی، ترجمہ کلام پاک ، وغیرہ کا درس لیا وہاں ان کے اساتذہ میں مولانا محمود الحسن گیاوی رحمۃاللہ علیہ اور حافظ انوار الحق ندوی رحمتہ اللہ علیہ کے نام شامل ہیں ۔ مدرسہ اشرف المدارس، کُلٹی کے بعد 1969ء میں شرح جامی کے سال، انھوں نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لے کر مولانا محمد صدیق کشمیری رحمۃاللہ علیہ ،مولانا محمد ظریف سہارنپور رحمۃاللہ علیہ ، مفتی عبد القیوم رائے پوری رحمۃاللہ علیہ اور مولانا محمد اللہ مظاہری رحمۃاللہ علیہ جیسے اساتذہ کرام سے اکتساب فیض کیا۔جس وقت آپ مظاہر علوم میں زیر تعلیم تھے، اُس وقت وہاں مولانا محمد یعقوب سہارنپوری رحمۃاللہ علیہ اور محمد سلمان مظاہری رحمۃاللہ علیہ درجۂ فنون کے طالب علم تھے اور ان کے ایک سال سینئر طلبہ میں سابق امیر تبلیغی جماعت زبیر الحسن کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ (متوفی: 2014ء) زیر تعلیم تھے ، امینِ عام (سیکرٹری) مظاہر علوم جدید مولانا محمد شاہد سہارنپوری مدظلہ اور سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ مولانا وسیم احمد سنسار پوری رحمۃاللہ علیہ (متوفی: 2020ء) بھی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔1968 میں دارالعلوم دیوبند میں ان کا داخلہ ہوا، اس وقت تک چوں کہ دار العلوم دیوبند میں درجہ بندی نہیں ہوئی تھی، تو ان کا داخلہ مختصر المعانی، شرح وقایہ اور مقامات حریری کی جماعت میں ہوا، 1971ء میں دورۂ حدیث سے ان کی فراغت دارالعلوم دیوبند سے ہوئی۔ دورۂ حدیث کے بعد 1972ء میں انھوں نے دارالعلوم ہی سے تکمیل ادب کیا، اس کے بعد 1973 و 1974ء میں وہ شعبۂ خوش نویسی میں رہے، پھر 1975ء میں انھوں نے وہیں سے تکمیل افتا بھی کیا۔ دار العلوم دیوبند میں ان کے درجات عربی کے اساتذہ میں حضرت مولانا بہاء الحسن مرادآبادی، مولانا اعزاز الاسلام عرف حامد میاں دیوبندی (ابنِ اعزاز علی امروہوی)، مولانا فخر الحسن مرادآبادی، مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی، مولانا سید اختر حسین دیوبندی، مولانا اسلام الحق اعظمی، مولانا محمد نعیم دیوبندی، مولانا شریف حسن دیوبندی، مولانا خورشید عالم دیوبندی، مولانا محمد حسین بہاری، مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا انظر شاہ کشمیری، مولانا نصیر احمد خان بلند شہری، مولانا عبد الاحد دیوبندی، مولانا قمر الدین احمد گورکھپوری رحمہم اللہ علیھم بھی شامل تھے۔ ان کے خوش خطی کے اساتذہ میں مولانا شکور احمد دیوبندی، مولانا اشتیاق احمد قاسمی دیوبندی اور مولانا وحید الزماں کیرانوی تھے۔ اسی طرح ان کے افتا کے اساتذہ میں مفتی احمد علی سعید نگینوی، مفتی محمود حسن گنگوہی اور مفتی نظام الدین اعظمی رحمھم اللہ علیھم تھے۔ مندرجۂ بالا اساتذہ کے علاوہ انھوں نے حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمۃاللہ علیہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے سامنے بھ
ی زانوئے تلمذ طے کیا اور حجۃ اللہ البالغہ جیسی معرکتہ الآراء کتاب ان سے پڑھی تھی۔ مدرسے کی تعلیم کے علاوہ، انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کے انگلش امتحانات دے کر کامیابی حاصل کی، بی، اے ،کی تعلیم بھی مکمل کر لی، مگر 1980ء میں دار العلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کی مصروفیات کی وجہ سے بی اے کے آخری امتحان میں شریک نہ ہو سکے۔ جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل اور 1990ء میں آگرہ یونیورسٹی (ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ) سے ایم اے (اردو) بھی کیا تھا. اکتوبر 1993ء میں امام بخاری کانفرنس، تاشقند میں انھوں نے علامہ عبد الفتاح ابو غدہ حلبی رحمۃاللہ علیہ سے خصوصی اجازت حدیث حاصل کی تھی۔ تکمیل افتا کے زمانۂ تعلیم ہی میں مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمۃاللہ علیہ نے ان کی اردو و عربی میں خوش نویسی دیکھ کر ان کو خطاطی کی مشق بھی کروائی، پھر بعد میں دعوۃ الحق اور الکفاح رسالوں کی کتابت کی ذمہ داری بھی ان سے متعلق کر دی۔ پھر خوش خطی و افتا نویسی کی تکمیل کے بعد؛ 1976ء میں پندرہ روزہ الداعی (موجودہ ماہنامے) کے معاون مدیر کی حیثیت سے دار العلوم دیوبند میں ان کا تقرر عمل میں آیا، جس ذمے داری کو انھوں نے 1982ء کے انقلاب دار العلوم تک بہ حسن و خوبی انجام دیا۔ انقلاب دار العلوم دیوبند، 1982ء کے وقت انھوں نے مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمۃاللہ علیہ کے ہم راہ ہوکر دار العلوم وقف دیوبند کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی اور تا دمِ آخر وہیں پر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اور ان کے اس (چالیس سالہ) تدریسی زندگی کے دوران، ادب، فقہ، اصول فقہ، کی کتابوں کے علاوہ، صحیح بخاری (جلد اول کے بعض پاروں) اور صحیح مسلم سمیت، دورۂ حدیث کی اکثر کتابوں کا درس ان سے متعلق رہا۔ اخیر میں صحیح مسلم کے علاوہ المختارات العربیہ اور حجۃ اللہ البالغہ جیسی اہم کتابیں ان کے زیر درس تھیں۔(مستفاد ویکی پیڈیا) دارالعلوم دیوبند کے مایہ استاد، الداعی کے اڈیٹر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃاللہ علیہ اور مولانا محمد اسلام قاسمی رحمۃاللہ علیہ دونوں بزرگوں نے دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کا زمانہ ایک ساتھ گزاراہے، اور کئی کتابوں میں ہم سبق بھی رہے ہیں “مے خانہ ٔوحیدی” (مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمۃاللہ علیہ) کے مےخواروں میں دونوں ساتھ ساتھ تھے ۔ بعد میں مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃاللہ علیہ جب دیوبند چھوڑ کر مدرسہ امینیہ دہلی چلے گئے اس وقت مولانامحمد اسلام صاحب دارالعلوم دیوبند ہی میں موجود تھے ۔ایک موقع پر جب مولانا امینی مدرسہ امینیہ سے دارالعلوم دیوبند کی انجمن “النادی” کے ایک پرو گرام میں شرکت کے لیے دیوبند آئے ،اور النادی کے طلبہ کو سرد مہری کا شکار دیکھا اور پہلے جیسا طلبہ میں جوش و خروش نہیں پایا تو مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمۃاللہ علیہ کے مشورے سے جن طلبہ کو پروگرام کے بعد از سر نو سر گرم ہونے کی مولانا امینی نے دعوت دی تھی ان میں مولانا محمد اسلام دمکوی بھی تھے ۔ اس کا تذکرہ مولانا نور عالم خلیل الامینی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب “وہ کوہ کن کی بات” میں کیا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمد اسلام صاحب اس زمانے میں دارالعلوم کے ممتاز طالب علموں میں سے ایک تھے ۔ اور دونوں کے درمیان مضبوط رابطے تھے ۔ وہ کوہ کن کی بات کے حاشیے میں مولانا امینی نے جن لوگوں کا تعارف کرایا ہے ان میں مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو حاشیہ کی یہ عبارت “مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی دمکوی (بہار) ( موجودہ صوبہ جھارکھنڈ) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند میں کئی کتابوں میں میرے ہم سبق رہے ۔نرم خو، اُس وقت بھی تھے اور اب بھی ہیں، حسن خط اور حسن اخلاق دونوں کے مالک ہیں ۔ حضرت الاستاد کے کاروان ادب اور ان کی “النادی “کے اس وقت سر گرم ممبر تھے ۔ دارالعلوم سے فراغت کے کچھ عرصے بعد ” دعوۃ الحق” کی جگہ پر جب ” الداعی” نکلنا شروع ہوا ، تو برادرم مولانا بدرالحسن کے ساتھ انھوں نے کئی سالوں تک اس میں کام کیا، نئے انتظامیہ کے قیام کے بعد وہ “وقف دارالعلوم” سے وابستہ ہو گئے ، اِ س وقت بھی وہ اسی میں بہ حیثیت مدرس عربی کام کر رہے ہیں “۔ (وہ کوہ کن کی بات) مولانا محمد اسلام قاسمی رحمۃاللہ علیہ زمانۂ طالب علمی ہی سے عربی واردو دونوں زبانوں میں لکھنے کا ذوق رکھتے تھے، اپنی تعلیمی زندگی ہی میں وہ طلبۂ صوبہ بہار کی سجاد لائبریری کے ماہانہ دیواری پرچہ” البیان” کے مدیر رہ چکے تھے، اسی دیگر رسائل و جرائد میں مضامین لکھا کرتے تھے، نیز عربی کے الیقظہ، الروضہ اور الكفاح جیسے جداریوں میں بھی مسلسل ان کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے. 1979 سے 1982ء کے درمیان، الداعی کے عربی مقالات کے علاوہ، ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند، پندرہ روزہ اشاعت حق دیوبند، ہفت روزہ ہجوم اور ہفت روزہ الجمعیۃ دہلی، جیسے رسالوں میں ان کے اردو مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔1983ء میں انھوں نے الثقافہ کے نام سے ایک ماہ نامے کا اجرا کیا، جو دو سالوں کے بعد موقوف ہو گیا، 1984ء میں انھوں نے “ماہ نامہ طیب “کی ادارت کی، دس سال سے زائد تک پندرہ روزہ “ندائے دار العلوم وقف” کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے اور ساتھ ہی ملک کے مختلف رسائل و اخبارات میں مختلف موضوعات پر ان کے مضامین شائع ہوتے رہے
آپ کے نوک قلم سے اب تک کل، سترہ کتابین منظر عام پر آ کر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں ۔ ان میں
(1) دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ(2) مقالات حکیم الاسلا م (3) ترجمہ مفیدالطالبین(4)میمہ المنجد اردو ،عربی( 5) القراء ۃ الر
اشدہ ترجمہ اردو، تین حصے (6) جد ید عربی میں خط لکھئے (7) جمع الفضائل شرح شمائل ترمذی (8)ازمۃ الخلیج عربی(9) خلیجی بحران اورصدام حسین(10)منہاج الابرارشرح اردو مشکوۃ الآثار (11) دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ (12)درخشاں ستارے(13 )رمضان المبارک فضائل و مسائل (14 ) زکوۃ وصدقات اہمیت و فوائد(15)دارالعلوم دیوبند (16خانوادہ قاسمی (17) متعلقات قرآن اور تفاسیر۔ مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب کے انتقال کے بعد تعزیتی پروگرام اور ایصال ثواب کا سلسلہ پورے ملک میں منعقد کئے جا رہے ہیں، اس تناظر میں دار العلوم وقف دیوبند کی دارالحدیث فوقانی میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس میں قرآن خوانی اور ایصال ثواب کے بعد دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتم مولا نا محمد سفیان قاسمی مدظلہ نے مولانا کے اوصاف و کمالات اور خدمات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی، ان کے تعلقات معاشرے کے ہر طبقہ کے لوگوں سے والہانہ اور خیر خواہانہ تھے۔ وہ ہر ایک سے تپاک اور خوش دلی سے ملتے تھے۔ ان کی شخصیت ایک باوقار اور خود دار شخصیت تھی۔ بذلہ سنجی و مزاح اور خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ سادگی ان کا خاص وصف تھا، وہ وسیع المطالعہ اور بابصیرت عالم دین تھے۔ ان کی خدمات دارالعلوم وقف دیوبند کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ وہ دارالعلوم وقف دیوبند کی خشت اساس سے ہی ادارہ سے وابستہ ہوئے اور علم حدیث اور علم ادب کے باب میں انہوں نے بڑی خدمات انجام دیں۔ ان کا درس طلبہ میں بے حد مقبول تھا اور طلبہ ان کے درس کے منتظر رہتے تھے۔ وہ اپنے منفرد انداز تدریس، افہام و تفہیم کی خصوصی لیاقت اور نکتہ آفرینیوں کی بناء پر ایک امتیازی مقام رکھتے تھے، ان کی رحلت دار العلوم وقف دیو بند کے لئے ایک عظیم نا قابل تلافی خسارہ
ہے”.
آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ” مولانا کے انتقال کی وجہ سے دارالعلوم وقف دیوبند نے عربی کے ایک ماہر استاذ کو کھودیا ہے۔
انہوں نے تعزیتی بیان میں کہا کہ مولانا محمد اسلام قاسمی کا شمار قدیم فضلاء میں ہوتا تھا اور وہ حکیم الاسلام مولانا قاری طیب رحم اللہ کے تربیت اور صحبت یافتہ تھے۔ انہیں خاندان قاسمی سے خاص وابستگی تھی۔ انہوں نے مولانا سالم قاسمی اور اس کے بعد ان کے جانشیں مہتمم دارالعلوم(وقف) دیوبند مولانا سفیان قاسمی کا اچھی طرح ساتھ نبھایا”
مدرسہ اسلامیہ عربیہ برنپور ضلع پچھم بردوان مغربی بنگال کے مہتمم، صوبہ جھارکھنڈ ضلع دھنباد کا مایہ ناز ادارہ جامع العلوم مہاراجگنج کے صدر المدرسین، جمیعۃ علماء ضلع دھنباد کے صدر، حضرت الحاج مولانا مفتی عبدالحی قاسمی صاحب نے مولانا اسلام قاسمی صاحب کی تعزیت میں رقمطراز ہیں ” ملک کے علمی و دینی حلقوں میں یہ خبر نہایت رنج و غم کے ساتھ سنی گئی کہ نامور، ممتاز عالم دین، ادیب با کمال، درجنوں کتابوں کے مصنف، ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم وقف دیوبند کے مایہ ناز استاذ حدیث و تفسیر، حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی رح 16 جون بروز جمعہ اپنے بے شمار تلامذہ، متعلقین و محبین کو ہمیشہ کے لئے سوگوار چھوڑ کر اس دارفانی سے دار بقا کی طرف رحلت فرما گئے اور اپنے خالق حقیقی سے سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون. آپ نے اعتماد علی اللہ، محنت، لگن، اور جذبہ صادق کے ساتھ علمی سفر کا آغاز فرمایا اور آگے بڑھے اور بڑھتے ہی چلے گئے، یہاں تک کہ رب کریم ابتداءً ازہر ہند دارالعلوم دیوبند اور پھر دارالعلوم وقف دیوبند میں خدمت دین کے لئے آپ کو قبول فرما یا اور عربی زبان و ادب میں کامل مہارت، علم حدیث و تفسیر کے ساتھ خصوصی اشتغال کے ساتھ تا دم حیات ام المدارس دارالعلوم وقف دیوبند کی مسند حدیث پر رونق افروز ہو کر ہزارہا طالبان علوم نبوت کو سیراب فرمایا، بلا شبہ آپ کی زندگی ہم چھوٹوں کے لئے لائق رشک و تقلید ہے، یقیناً آپ کی رحلت علمی دنیا کے لئے عظیم خسارہ ہے “.
لڑکیوں کا معروف ادارہ جامعہ ام سلمہ ضلع دھنباد جھارکھنڈ کے ڈائریکٹر مولانا آفتاب عالم ندوی صاحب نے مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار فرمایا ، مولانا نے اپنی تعزیتی تاثرات میں فرمایا کہ” مولانا اسلام صاحب قاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ ملت کا ایک عظیم سرمایہ تھے، آپ کی وفات ملت کیلیے عظیم خسارہ ہے ، مولانا رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم وقف دیوبند کے استاد حدیث تھے ، آپ صالحیت و صلاحیت کے پکے حامل تھے ، سادگی تواضع انکساری آپ کا نمایاں وصف تھا ، بڑے ملنسار اور خوش خصال تھے ، جامعہ کے بڑے خیر خواہ تھے ، میرا ایک زمانے سے ان سے تعلق رہا ، اتنے بڑے ادارے میں ہونے کے باوجود مولانا تعلی سے بہت دور تھے، آپ عربی اور اردو دونوں زبانوں کے خطاط تھے، اسی خوبی کو دیکھتے ہوئے مولانا وحیدالزماں کیرانوی نے آپ کو دیوبند سے نکلنے والا مجلہ ۔۔ الداعی ۔۔ کی کتابت و تزئین کاری کی ذمہ داری سونپی تھی
مولانا مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو صاحبزادے ہیں ، بڑے بیٹے انجینئر قمرالاسلام صاحب جو بنگلور میں رہتے ہیں اور دوسرے برادرم مولانا بدالاسلام قاسمی جو جامعہ امام محمد انورشاہ میں استاذ حدیث ہیں اور مولانا کے حقیقی جانشیں ہیں، نہایت محنتی ، تخلیقی ذہن اور لکھنے پڑھنے کاعمدہ ذوق ہے ، اللہ پاک تمام اہل خانہ او ر متعلقین کو صبر جمیل عطافرمائے ۔آمین یا رب العالمین