مکہ مکرمہ کے بارہ اسماء مبارکہ

قرآن حکیم میں مکہ مکرمہ کے جو مختلف نام آئے ہیں اگر اس کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں تو اس متبرک سرزمین کی عظمت اور اس کی فضیلت ہمارے سامنے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مختلف اسماء قرآن حکیم میں درج فرماکر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
سورۃ الفتح کی آیت 24 میں ’’مکہ‘‘ کا ذکر یوں ہوا:
وَہْوَ الَّذِی کَفَّ اَیدِیَہْم عَنکُم وَاَیدِیَکُم عَنہْم بِبَطنِ مَکَّۃَ مِن بَعدِ اَن اَظفَرَکُم
وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، حالانکہ وہ ان پر تمہیں غلبہ عطا کرچکا ہے۔ اس طرح مکہ مکرمہ کا ذکر ۲ ہجری میں صلح حدیبیہ سے مدینہ واپسی کے دوران ہوا۔
مکہ کے معنی مٹادینے کے ہیں اور ایک معنی ہلاک کردینا ہے، کیوں کہ یہ شہر گناہوں کو مٹادیتا ہے، ختم کردیتا ہے اور جو بھی اس پر ظلم کرے یہ سرزمین اْسے ہلاک کردیتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال ابرہہ کی ہے جو کعبہ کو ڈھانے کے ارادے سے نکلا تھا مگر ناکام ہوا اور ذلت آمیز طریقہ پر برباد و ہلاک ہوکر رہا۔
سورۃ آل عمران آیت 96 میں اس کا نام ’’بَکَّۃَ‘‘ آیا ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مْبَارَکاً وَہْدًی لِّلعَالَمِینَ
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لئے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی ہے اور تمام جہان والوں کے لئے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس طرح مکہ کو اولین مرکز توحید ہونے کی حیثیت سے اْبھارتے ہوئے ’’بَکَّۃَ‘‘ کے نام سے یادکیا گیا۔ ’’بَکَّۃَ‘‘ کے معنی چور چور کردینا، پھاڑنا اور ختم کردینا کے آتے ہیں، کیوں کہ یہ شہر ظالم و جابر آدمیوں کے غرور و تکبر کو چْور چْور کرکے رکھ دیتا ہے۔ ’’بَکَّۃَ‘‘ سے متعلق ۴ اقوال آئے ہیں۔
۱۔ بکہ وہ خاص جگہ ہے جہاں کعبۃ اللہ شریف ہے۔
۲۔ کعبۃ اللہ اور اس کے اطراف والی جگہ ’’بکہ‘‘ کہلاتی ہے اور سے زائد حصہ کو مکہ کہا جاتا ہے۔
۳۔ ’’بکہ‘‘ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں بیت اللہ شریف ہے اور مکہ کے حکم میں سارا حرم شامل ہے۔
۴۔ بکہ اور مکہ یہ دونوں نام اس مقدس شہر کے ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں۔
اس کا تیسرا نام ’’ام القریٰ‘‘ ہے اس کا ذکر سورۃ الانعام کی آیت 92 میں مذکور ہے۔ فرمایا :
وَہَذَا کِتَاب اَنزَلنَہُ مُبٰرَک مّْصَدِّقْ الَّذِی بَینَ یَدَیہِ وَلِتْنذِرَ اْمَّ القْرَی وَمَن حَولَہَا
(اسی کتاب کی طرح) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے بڑی خیر و برکت والی ہے، اس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی اور اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو۔ یہاں پر مکہ مکرمہ کو ’’اُم القریٰ‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مقدس شہر کو جو عظمت والا بھی ہے اِسے اْم القریٰ کے نام سے یاد کرنا، یہ یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ایک سے زائد وجوہ ہیں۔
پہلا یہ کہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے بقیہ زمین کو پھیلایا گیا ہے، جدید و قدیم تحقیقات کی رو سے یہ خشک زمین کے وسط میں واقع ہے، اور کعبہ مشرفہ زمین کا مرکز ہے۔
دوسرا یہ کہ قدیم ترین شہر کی مناسبت سے اِسے اْم القریٰ قرار دیا گیا کیوں کہ یہ بستیوں کی ماں ’’اْم القریٰ‘‘ ہے۔
تیسرا یہ کہ ’’اُمَّ‘‘ کے معنی قصد کرنے اور رْخ کرنے کے بھی آتے ہیں اور اس لئے بھی کہ (اللہ کی عبادت ) ’’نماز‘‘ پڑھنے والے بھی اسی طرف اپنا رْخ کرتے ہیں۔ چوتھی چیز یہ کہ جس طرح ماں کا درجہ بلند و بالا ہے۔ ٹھیک اسی طرح یہ تمام بستیوں میں ماں کا درجہ ہے۔ (تاریخ مکہ مکرمہ صفحہ 11)
اس کا چوتھا نام ’’البلد‘‘ ہے۔ اس کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ ابراھیم کی آیت 35 میں آیا ہے۔
وَاِذ قَالَ اِبرَاہِیمْ رَبِّ اجعَل ہَذَا البَلَدَ آمِنًا
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ابراھیمؑ نے کہا اے رب اس شہر کو امن کی جگہ بنادے۔
آیت کریمہ میں لفظ ’’البلد‘‘ جو آیا ہے یہ صرف مکہ مکرمہ کیلئے ہے۔ (زاد المیر 250/8)
پانچواں نام ’’البلد الامین‘‘ یہ سورۃ التین کی آیت 3 میں آیا ہے۔
وَھَذَا البَلَدِ الاَمِین اور قسم ہے اس امن والے شہر کی۔
ابن جوزیؒ فرماتے ہیں : زمانہ جاہلیت ہو کہ زمانہ اسلام، خوف و ہراس میں مبتلا ہر شخص یہاں امن پاتا ہے۔ اہل عرب ’’آمن‘‘ کو امین سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے قبل بھی یہاں کے باشندوں کو بھوک پیاس سے بے نیازی اور خوف و ہراس کے دور میں بھی پرامن شب و روز عطا ہوتے رہے۔ یہ محض اس متبرک شہر کا طفیل ہے کہ شریر لوگ یہاں کے رہنے والوں پر ہاتھ نہ ڈالتے تھے اور یہاں کے قافلے جو تجارت کی غرض سے دور دراز مقامات پر جایا کرتے تھے مگر اِن قافلوں پر بڑے بڑے ڈاکو و لٹیرے بھی صرفِ نظر سے کام لیا کرتے تھے۔
اس کا چھٹا نام ’’اَلبَلدَۃ‘‘ ہے جس کا ذکر سورۃ النمل آیت 91 میں آیا ہے۔
اِنَّمَا اُمِرتُ اَن اَعبْدَ رَبَّ ہَذِہِ البَلدَۃِ الَّذِی حَرَّمَہَا
(اے محمدؐ، ان سے کہو) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے۔
اس سلسلہ میں بھی ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ بلدہ سے مراد مکہ معظمہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے مزید تشریح یوں فرمائی ’’یہ سورہ چونکہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جبکہ اسلام کی دعوت ابھی صرف مکہ معظمہ تک محدود تھی اور مخاطب صرف اس شہر کے لوگ تھے، اس لئے فرمایا ’’مجھے اس شہر کے رب کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے‘‘ اس کے ساتھ اس رب کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ اس نے اسے حرم بنایا ہے۔ (تفہیم القرآن)
اس کا ساتواں نام ’’حرم آمن‘‘ سورۃ القصص کی آیت 57 میں ذکر کیا گیا ہے۔ اَوَلَم نْمَکِّن لَّھْم حَرَمًا اٰمِنًا کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو ان کے لئے جائے قیام بنادیا۔
یہاں پر ’’پرامن حرم‘‘ سے مراد شہر مکہ ہے اور اس کی عظمت و مرکزیت کی بناء پر یہاں کے لوگوں کے لئے ساری دنیا سے ضروریات زندگی کا سامان کھنچے چلا آتا ہے اور اس حرم سے باہر دور دراز مقامات پر بھی یہاں کے باشندوں کو امن و امان حاصل ہے۔ اس شہر کی عظمت و حرمت زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت سے ہی رکھی گئی ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا :
’’اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت سے حرمت والا قرار دیا ہے جب سے آسمان و زمین کو تخلیق بخشی، اور یہ حرمت قیامت تک کے لئے ہے نہ کسی جھاڑ جھنکار کو کاٹنا جائز ہے اور نہ کسی جانور کو پریشان کرنا‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب جزاء الصید، حدیث نمبر 1834)
اس کا آٹھواں نام ’’وَادٍ غیر ذِی زرع‘‘ سورہ ابراھیم آیت 37 میں آیا ہے:
رَّبَّنَا اِنِّی اَسکَنتُ مِن ذْرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیرِ ذِی زَرعٍ عِندَ بَیتِکَ المْحَرَّمِ
پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے۔ یہاں محترم گھر کے پاس سے مراد کعبۃ اللہ سے قریب کا حصہ ہے جو انسانی ضروریات کا وہاں کوئی سامان نہیں تھا۔
اس کا نواں نام ’’معاد‘‘ ہے جو سورۃ القصص کی آیت 85 میں ذکر کیا گیا۔
اِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیکَ القُرآنَ لَرَادّْکَ ِلَی مَعَادٍ
اے نبیؐ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن آپ پر فرض کیا ہے، آپ کو واپس لے جائے گا جہاں آپ چاہتے ہیں۔
’’معاد‘‘ کے معنی ہے لوٹنے کی جگہ، اس سے مراد مکہ شریف ہے۔ معاد کے معنی جنت بھی کیا گیا ہے۔ (ضیاء القرآن)
اس کا دسواں نام ’’قریٰ‘‘ سورہ محمد کی آیت کریمہ 13 میں ذکر کیا گیا ہے :
وَکَاَیِّن مِّن قَریٍَۃ ہِیَا اَشَدّْ قْوَّۃً مِّن قَریَتِکَ الَّتِی اَخرَجَتکَ اَہلَکنَاہُم فَلَا نَاصِرَ لَہْم
اے نبیؐ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زورآور تھیں جس نے تمہیں نکالا۔ ابن جوزیؒ نے اس آیت مبارکہ میں آپ کی بستی سے مراد ’’مکہ مکرمہ‘‘ لیا ہے۔
ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہر مکہ سے باہر نکل کر مکہ کی طرف رْخ فرماکر یہ بات ارشاد فرمائی کہ :
’’اے مکہ‘‘ تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے، اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا‘‘۔ (تفہیم القرآن)
اس کا گیارہواں نام سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 1 میں ’’المسجد الحرام‘‘ کے نام سے لیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو معراج عطا ہوئی ہے اس سفر کا آغاز بھی اِسی حرمِ مکہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ بھی مسجد حرام کا ذکر قرآن حکیم کے دوسرے مقامات پر بھی ہوا ہے۔
اس کا بارہواں نام ’’اَلبَیتِ العَتِیقِ‘‘ سورہ الحج کی آیت 29 میں ذکر کیا گیا ہے۔
وَلیَطَّوَّفْوا بِالبَیتِ العَتِیقِ
اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔
(نوٹ) : یہ طواف حج کے موقع پر کیا جاتا ہے جسے طواف افاضہ یا طواف زیارہ کہا جاتا ہے۔ کعبہ کے لئے ’’بیت عتیق‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔ ’’عتیق‘‘ عربی زبان میں تین معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ایک قدیم، دوسرے آزاد جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو۔ تیسرے مکرم اور معزز۔ یہ تینوں ہی معنی اس پاک گھر پر صادق آتے ہیں۔ (حوالہ سابق)

ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار وآزاد صحافی۔ فون نمبر: 9849099228
ای میل: mahafeez.islami@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے