افسانہ: ذبیحہ

پچھلے مہینے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی پر کافی پیسہ خرچ ہوا۔ کم سے کم چودہ لاکھ کا خرچہ آیا۔ حالانکہ ہم جہیز کے بالکل خلاف ہیں, لیکن داماد جی، جو کہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہیں، ان کو تحفے کے طور ایک گاڑی خرید کر دینی پڑی ۔ اب میری پینشن سے اس گاڑی کی قسط بھی کٹ رہی ہے۔ بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کا پورا پیسہ ایک تو مکان سجانے میں صرف ہوا اور جو کچھ بچا تھا اس میں اپنی بیٹی کی شادی کا فرض ادا کیا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور اس مہنگائی میں پینشن کے پیسوں سے گھر کے اخراجات پورے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ میرا بیٹا ایک ڈاکٹر ہے اور شادی کرتے ہی اپنی بیوی کے ہمراہ امریکہ چلا گیا اور اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا۔ کبھی کبھار سال میں دو تین بار ویڈیو کال کرکے حال چال پوچھ لیتا ہے۔ پچھلے کال پہ کہہ رہا تھا کہ امریکہ میں اس کا بھی گزارا بڑی مشکل سے ہو رہا ہے۔ آمدنی سے کہیں زیادہ اخراجات ہیں۔

اٹھارہ ہزار کی پینشن میں آٹھ ہزار تو داماد جی کی گاڑی کا قسط طے ہوا ہے۔چھ ہزار ہم دونوں میاں بیوی کی دوائیوں پر صرف ہوتے ہیں اور باقی چار ہزار پر ہم اپنا پیٹ پال لیتے ہیں۔
کل کھڑکی سے یوں ہی جھانکا تو پڑوسی نے بڑی عاجزی سے عرض کیا کہ میاں قربانی کے لیے کون سا جانور خریدا ہے؟ میرے ذہن میں یہ بات بالکل نہیں تھی کہ عیدِ قربان تو محض چند دنوں کی دوری پر ہے۔ ہر طرف بڑی تیزی سے قربانی کے جانوروں کی خرید وفروخت ہو رہی تھی۔ میں نے آج تک ہر سال قربانی کا فریضہ بڑے ذوق و شوق سے انجام دیا تھا۔ اب سوچ میں پڑ گیا کہ کس طرح اس سال میں یہ مبارک فریضہ انجام دوں۔ میرے نیک سیرت پڑوسی نے قربانی کے لئے چالیس ہزار کی بھینس خرید کر لائی تھی۔

گاڑی کی قسط تو پینشن آتے ہی خود بخود کٹ جاتی ہے۔ دوائیاں مہینے کی پہلی تاریخ کو ہی خرید چکا ہوں۔ جیب میں دو ہزار سے زیادہ نہیں ، اب اس صورت میں قربانی کیلئے جانور کیسے خرید لوں؟۔۔۔ بیٹی نے بھی فون کیا کہ بابا اس سال کوئی مہنگا سا جانور قربانی کے لئے فروخت کرنا جو میرے سسرال کے جانور سے قیمتی ہو، آخر میری عزت کا سوال ہے۔ میں نے بے بسی کی حالت میں اپنے بیٹے کو فون کیا۔ حال و احوال پوچھنے کے بعد جوں ہی میں نے اپنی تنگدستی کا ذکر کیا تو بیٹے نے حیلے بہانے بنا کر فون ہی کاٹ دیا۔ دل کو بڑا گراں گذرا مگر شاید اپنی تربیت یا قسمت پہ سوال آتا ہے۔

میری بیگم بھی قربانی کے مسئلہ کو لے کر بے حد سنجیدہ تھی۔ حالانکہ ان کو میرے حالات کی پوری خبر ہے۔ لیکن کہنے لگی کہ میاں کچھ بھی کر لو، قربانی کا جانور تو آپ کو خرید کر لانا ہی ہوگا۔ “کسی سے قرض لے کر محض دکھاوے کے لئے قربانی کرنے کی اجازت اسلام قطعاً نہیں دیتا”۔ میں نے یہ بات اپنی بیگم اور بیٹی کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی ضد کے سامنے میں نے اپنی ہار کو تسلیم کرنا ہی مناسب سمجھا۔

میں نے اپنی زندگی میں بے انتہا قربانیاں دے کر اپنی اولاد کی تربیت کی تھی۔ اپنی خواہشات کو قربان کرکے ہمیشہ اپنے بچوں کی پرورش کا خاصا خیال رکھا تھا۔ لیکن یہ ساری قربانیاں آج کسی اہمیت کی حامل نہ تھیں۔ میں مغموم تھا۔ سچ کہوں تو میری راتوں کی نیند حرام ہو چکی تھی۔

کل صبح صبح چائے پی رہا تھا کہ اچانک پرانے کلرک صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے حمید صاحب آپ کی کچھ رقم ڈپارٹمنٹ کے پاس بچی ہوئی تھی، کم سے کم چالیس ہزار روپیہ ہے! ۔۔۔ حمید صاحب آپ جلدی سے چھ ہزار روپے میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دو کیونکہ مجھے آج ہی قربانی کے لئے جانور خرید کر لانا ہے اور شام تک آپ کے اکاؤنٹ میں پورے پیسے آجائیں گے۔

میری تو جیسے جان میں جان آ گئی! لیکن پھر سوچ میں ڈوب گیا کہ چھ ہزار روپے رشوت دے کر قربانی کا متبرک فریضہ انجام دینا کیا جائز ہے؟ آخر وہ میرے خون پسینے کی کمائی ہے۔۔۔ خیر میں نے اپنے دوست سے چھ ہزار روپے ادھار لے کر کلرک صاحب کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے اور اس کے وعدے کے مطابق شام کو ٹھیک پانچ بجے میرے اکاونٹ میں اکتالیس ہزار روپے آ گئے۔ میں بڑا حیران تھا کہ یہ رشوت خور لوگ وعدہ خلافی شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔

میں پیسے نکال ہی رہا تھا کہ سمدھی جی کا فون آگیا۔ حمید صاحب ہم نے اس سال راجستھان سے قربانی کے لئے اونٹ خریدا ہے اور ابھی ابھی اونٹ ہمارے گھر پہنچ گیا۔ گھر پر کافی بھیڑ ہے۔ سارا علاقہ اونٹ کے دیدار کے لیے بے تاب ہے۔ آپ بھی تشریف لائیے۔ یہ سن کر میرے ہوش ہی اڑ گئے۔۔۔

بوجھل قدموں سےگھر کی جانب جا رہا تھا کہ راستے میں مرحوم دوست کی بیوی حلیمہ سے ملاقات ہوئی۔ حال چال پوچھنے پر پتا چلا کہ اس کے بڑے بیٹے کی موت ہوئی ہے۔ چھوٹا بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور حلیمہ گھر کے ایک کمرے میں علیحدہ اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔ حلیمہ پرنم آنکھوں سے اپنی مفلسی کے حالات بیان کرنے لگی۔ حلیمہ نے بتایا کہ وہ کینسر کی بیماری میں مبتلا ہے اور اپنے اخراجات بھیک مانگ کے پورا کر رہی ہے۔ مجھے کافی دکھ ہوا اور میں نے جیب سے دس ہزار روپے نکال کر حلیمہ کے ہاتھ میں تھما دیے کہ تھوڑی بہت راحت ہو جاۓ۔ حلیمہ دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوئی۔

سسرال سے آکر بیٹی نے گھر میں ماحول کو بڑا گمبھیربنایا تھا۔ میرے اندر قدم رکھتے ہی ایک ہی سانس میں کہنے لگی کہ اس کے سسر اور اس کے تین بھائیوں نے مل کر قربانی کے لئے راجستھان سے اونٹ خریدا ہے اور ایک میرے باپ ہیں کہ ابھی تک گھر میں قربانی کا جانور نہیں آیا ! کتنے لاپرواہ ہیں میرے بابا۔۔۔۔۔۔۔ میرے منہ پہ جیسے دھمکی دے کر گئی کہ شام تک وہ بھی اس گھر میں اونٹ دیکھنا چاہتی ہے۔ آخر امجد اور اس کی عزت کا سوال ہے۔ اگر اس گھر میں قربانی نہیں ہوئی تو امجد کو بڑا ناگوار گذرے گا۔ امجد نے مجھے یہ بات کہنے ادھر بھیجا ہے۔۔ چلتی ہوں۔۔۔۔۔۔

میں ایک لا چار باپ تھا جس نے ساری عمر محنت کرکے زندگی کے تمام ارمان اپنے اہل خانہ پر قربان کیے تھے اور مزید قربانی دینا اب نہ تو میرے بس کی بات تھی اور نہ ہی میری اوقات میں تھا۔ بیٹی اور اپنے داماد کی بے جا فرمائش پوری کرنے کے لئے میں نے ایک دوست سے قرض لیا اور اگلے دن اسّی ہزار کا اونٹ خرید کر گھر لے آیا۔ حالانکہ میں اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ یہ پیسے مجھے بڑھاپے میں اپنا اور اپنی زوجہ کا پیٹ کاٹ کر نہ جانے کتنے سالوں میں لوٹانے ہیں۔

میرا داماد اور بیٹی خوش و خرم دوسری عید کے دن میرے گھر تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ سمدھی جی بھی آۓ تھے ۔ گھر پر پڑوسیوں وغیرہ کی بھی کافی بھیڑ تھی۔ پڑوسی شاید شرما رہے تھے کیونکہ ان کے پاس قربانی کے لئے چھوٹے چھوٹے جانور تھے۔ کچھ صحافی حضرات بھی کیمرے لے کر تیار بیٹھے تھے، امجد اور میری بیٹی بھی فیس بک پر لائیو جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور اسی بھیڑ میں اونٹ کو ذبح کیا گیا۔ اونٹ کے ذبح ہونے کا سماں کیمرہ میں قید کرلیا گیا جسے سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شیئر کیا۔
میں اور میری بیگم خاموشی سے یہ سب کچھ برآمدے کے ایک کونے میں دیکھ کر اندر ہی اندر ذبح ہو رہے تھے۔

افسانہ نگار: فاضل شفیع بٹ
اکنگام انت ناگ (کشمیر)
رابطہ: fazilshafibhat@gmail.com

One thought on “افسانہ: ذبیحہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے