“یونیفارم سول کوڈ” کے موضوع پر مولانا محمد قمرالزماں ندوی سے ایک انٹرویو (پہلا حصہ)

سوال۔۔ مولانا صاحب! سب سے پہلا سوال آپ سے ہے کہ کیا یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے یا سبھی ذاتی اور دھرم والوں کا ؟ اس سے صرف مسلمانوں کے دین و عقیدہ پر ضرب پڑے گا ،یا اس سے ہندوستان کے سارے مذاہب کے آستھا اور مذہبی امور پر اس کا اثر پڑے گا؟ ۔۔
جواب ۔۔۔ یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے, بلکہ اس کا منفی اثر اور اس سے نقصانات سب دھرم اور مذہب کے ماننے والوں کا ہے ،کیونکہ اس ملک میں الگ الگ مذہب کے لوگ رہتے ہیں اور سب کی آستھا ریت رواج اور عقائد و عبادات کے طریقے الگ الگ ہیں ،یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہوگا کہ بہت سے مسئلہ میں اپنے دھرم کے مذہبی عقائد اور طور و طریقہ کو چھوڑنا پڑے گا ۔
سوال ۔۔۔۔۔قانونی اور دستوری اعتبار سے سول کوڈ کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ذرا اس پر روشنی ڈالئے ۔۔
جواب ۔۔۔دستور ہند کی دفعہ 25/ اور 26/ میں بنیادی حقوق کا تحفظ کردیا گیا ہے ۔لیکن دستور کی دفعہ 44/ باب /4 میں یونیفارم سول کوڈ بنانے کا ذکر کیا گیا ہے اور ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں کوشش کریں تاکہ یکسانیت کی وجہ سے ملکی نظام میں استحکام آئے اور آپسی تعلقات خوشگوار ہوں ۔
غرض یہ کہ ہندوستان جب آزاد ہوا تو دستور میں ہندوستان کے رہنے والوں کے عقائد ،مذہب اور تہذیب کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ۔ساتھ ہی ساتھ دستور کی دفعہ 44 میں ملک کے لئے یکساں شہری قانون بنانے اور اس کے نافذ کرنے کی طرف رہنمائی کی گئی ۔یہی ہدایتی دفعہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی اور ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ پیدا کرتی ہے ۔۔ مولانا سید شاہ منت اللّٰہ صاحب رحمانی رح نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ
یاد رہے کہ یہ باب رسم و رواج سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ بنیادی حقوق سے ،جن کا تعلق رسم و رواج سے آگے مذہب سے ہے ۔اور پرسنل لا کی بنیادیں مذہب سے وابستہ ہیں ۔لہذا ان پر دفعہ 44 کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔البتہ جن لوگوں کا پرسنل لا مذہب سے وابستہ نہ ہو ان کا مدار رسم و رواج پر ہو ان پر دفعہ اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ اس وضاحت سے مسلم پرسنل لا کی دستوری حیثیت کا سمجھنا آسان ہو جائے گا ۔۔
سوال ۔۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی زندگی پر کیا اثر پڑے گا ؟
جواب ۔۔یکساں سول کوڈ جیسا بھی ہو ،بہر حال غیر اسلامی ہوگا ۔خدانخواستہ اگر یکساں سول کوڈ کو لایا گیا تو مسلمانوں کی معاشرتی و عائلی زندگی بڑی الجھنوں اور دقتوں میں پڑ جائے گی اور بہت سے معاملات میں ہمیں قانون کے ذریعہ مجبور کیا جائے گا کہ ہم جائز چیزوں کو چھوڑ دیں اور حرام کو قبول کرلیں ۔ یاد رہے کہ ایک مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی شریعت کے مطابق گزارے ،ان کے شخصی قوانین ان کی ملی شخصیت کے کے لئے اتنے ہی ناگزیر ہیں جتنا کسی زندہ جسم کے لئے اس کے اعصاب ضروری ہوتے ہیں ۔
سوال ۔۔۔ آپ کی نظر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے شریعت کے کیا کیا احکام متاثر ہوسکتے ہیں ،اس کی کچھ مثالیں ۔۔
جواب ۔۔۔یونفارم سول کوڈ کے نفاذ سے شریعت کے درجنوں قوانین اور احکام متاثر ہوں گے اس کی کچھ مثالیں ہم دے رہے ہیں ۔
مسلمانوں کو متبنیٰ بل کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔یعنی ان کو بھی ہندؤ کوڈ کی طرح یہ ماننا پڑے گا کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بیٹا یا بیٹی نسبی اور حقیقی اولاد ہوجاتی ہے اور متبنی اولادیں پورے طور پر وراثت کا حقدار ہوں گی ،جب کے اسلام نے متبنیٰ کی حیثیت کو بالکل تسلیم نہیں کیا ہے، کسی کو لے پالک بنا لینے سے وہ حقیقی اولاد نہیں ہوجاتی ۔
تعدد ازواج پر روک ہوگی ،یعنی ایک مسلمان ضرورت پر بھی دوسری تیسری شادی نہیں کرسکے گا ۔ اگر مجبوری میں شادی کرنا ضروری ہو گا تو عدالت سے اجازت لینی ہوگی اور پہلی بیوی کی رضا مندی ضروری ہوگی ۔۔
شادی کے بعد تین سال تک زوجین کے درمیان لاکھ اختلاف اور دوری پیدا ہوجائے مرد کو طلاق کا حق نہیں رہے گا ،تین سال کے بعد ہی عدالت میں مقدمہ دائر ہوگا اور طلاق کا حق عدالت کو رہے گا۔یہ سسٹم خدا کے بنائے ہوئے قانون سے صاف ٹکراتا ہے ۔شریعت نے اس کا پابند نہیں بنایا ہے کہ نباہ ہورہا ہو یا نہیں ،بہر حال تین سال تک میاں بیوی ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں ،شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے اور خلع اور فسخ کا حق عورت کے لئے مخصوص کیا ہے۔اس لئے اس طرح کے قوانین ایک مسلمان کی عائلی زندگی کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔۔ اسی طرح اسلامی قانون کی رو سے مسئلہ یہ ہے کہ اگر زوجین میں نباہ کی کوئی صورت باقی نہیں ہے ،افہام و تفہیم ضرب قلیل و یسیر یعنی معمولی تنبیہ اور تحکیم یعنی پنچایت بھی کار گر نہ ہوسکے تو زوجین کو اس تلخ بھری زندگی سے اپنے کو آزاد کرلینا چاہیے ۔ ایسے موقع پر شوہر کو حق ہے کہ وہ اس اجیرن بھری زندگی سے نجات حاصل کرلے ،اس کی صورت یہ ہے کہ وہ ایک طلاقاحسن یا طلاق سنت دے دے اور پھر اس رشتہ کو ختم کرلے ۔ اور طلاق میں بھی وہ صورت اختیار کرے کہ بعد میں اگر افسوس ہو تو دوبارہ نکاہ کی گنجائش رہے ۔۔
طلاق کے بعد عورت صرف عدت تک کے لئے سکنی اور نفقہ کا حقدار ہوگی ۔اس سے زیادہ کی نہیں ۔ لیکن یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد جب تک کہ عورت کی دوسری شادی نہ ہو جائے یا اس کی موت نہ ہو جائے اس کا نفقہ سابق شوہر پر ہوگا ۔ یہ قانون بھی اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔۔
سوال کیا یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے اسلام کے قانون وراثت پر بھی اثر پڑے گا ،قانون وراثت بھی متاثر ہوگا ۔
جواب ۔۔۔ جی ہاں اسلام کے دیگر شعبوں کی طرح اسلامی قانون وراثت پر بھی اس کا بری طرح اثر پڑے گا ۔
مثلا ہندؤ کوڈ میں وراثت کے م تعلق بھی دفعات موجود ہیں ۔یہ دفعات بھی اسلام کے قانون وراثت سے ٹکراتی ہیں ۔مٹلا ہندؤ کوڈ نے ماں ،بیوی ، بیٹا اور بیٹی کو برابر کا درجہ دیا ہے ، اگر مرنے والے کے یہ چاروں وارث موجود ہوں تو جائیداد برابر تقسیم کی جائے گی اور سبھوں کو برابر حصہ ملے گا ۔ جب کہ اسلام نے ان چاروں کے لئے الگ الگ درجات متعین کئے ہیں اور ہر ایک کے حصہ کی مقدار بتا دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح ہندؤ کوڈ کا وہ پورا حصہ جو میراث سے متعلق ہے اسلام کے قانون میراث سے بالکل الگ ہے۔ بہت سے وہ لوگ جو اسلامی قانون کے لحاظ سے حقدار یا زیادہ کے حقدار ہوا کرتے ہیں ہندو کوڈ کی نظر میں ان کا حصہ کم ہوگا یا نہیں ہوگا ۔اور بہت سے وہ لوگ جو اسلامی قانون کے لحاظ سے کم کے مستحق ہیں یا جنہیں کچھ نہیں ملنا چاہیے ،وہ ہندؤ کوڈ کے مطابق زیادہ پاسکتے ہیں ۔اسلامی نقطئہ نظر سے اس طور پر کچھ لوگوں کی حق تلفی اور کچھ لوگوں کو بیجا نفع پہنچتا ہے جو غلط ہے ۔۔
سوال ۔۔ کیا ہندؤ کوڈ مغربی سانچوں میں ڈھلا ہوا ہے اور اس قانون کے بناتے وقت ان کے سامنے کسی مغربی ملک کا کوئی قانون رہا ہے ؟
جواب ۔۔ حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کے قانون سازوں کا ذہن مغربی سانچوں میں ڈھلا ہوا ہے اور قانون بناتے وقت ان کے سامنے کسی مغربی ملک یورپ و امریکہ کا کوئی نہ کوئی مسودہ اور قانون رہا ہے اور رہا کرتا ہے ۔اس لئے یہ یکساں سول کوڈ پورے طور پر مغربی طرز کا ہی ہوگا ،جس کی ایک مثال ،، ہندؤ کوڈ ،، ہے ،میرا خیال ہے کہ اگر حکومت نے یہاں یکساں سول کوڈ نافذ کیا تو وہ موجودہ ہندؤ کوڈ کو یونیفارم سول کوڈ کا نام دے گی ،اسے تھوڑی بہت ظاہری تبدیلی کے ساتھ کامن سول کوڈ بنا دیا جائے گا ۔
سوال ۔۔یکساں سول کوڈ کے حامی چاہے حکومت ہو یا افراد ان کی طرف سے یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ جب مسلم ممالک میں مسلم پرسنل لا کو ختم کیا جا سکتا ہے اور یکساں قانون نافذ کیا جاسکتا ہے تو ہندوستان میں اس تبدیلی سے آخر مسلمانوں کو کیا پریشانی اور دقت ہے؟ وہ لوگ مسلمانوں کو مسلم ممالک کی پیروی کا مشورہ دیتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ۔۔
جواب ۔۔جو لوگ یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے لئے مسلم ممالک کا حوالہ دیتے ہیں ،وہ غلط فہمی کے شکار ہیں ۔
مسلم پرسنل لا کی تنسیخ یا تبدیلی کی یہ دلیل بظاہر مضبوط معلوم ہوتی ہے ،مگر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جو بھی چیز قرآن وحدیث کے خلاف ہے ،وہ غلط ہے ،خواہ کہیں ہورہا ہو اور کوئی کر رہا ہو ،مسلم ملک کی غلط کاروائی اسلامی قانون نہیں کہلا سکتی ہے۔اور نہ اس بنیاد پر اسلامی قانون میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔جو چیز قرآن مجید اور سنت رسول کی روشنی میں صحیح ہے اسے ہی صحیح اور اسلام کے مطابق کہا جائے گا ۔۔
سوال ۔۔اسلامی ممالک میں قوانین کی تبدیلی کا جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ،اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ۔
جواب ۔۔۔ مسلم ممالک میں پرسنل لا کی تنسیخ و تبدیلی کی بات کہی جارہی ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے ،وہ سچائی سے دور ہے ۔یاد رہے کہ مسلم ممالک میں عام طور پر مسلم پرسنل لا نافذ ہے اور وہاں کے لوگ شریعت کے مطابق اپنے عائلی مسائل حل کر رہے ہیں ۔صرف چند ممالک ایسے ہیں جہاں تبدیلی ہوئی ہے ۔ اس کی مثال میں آپ ترکی موجودہ ترکیہ کو پیش کرسکتے ہیں ،جہاں 1926ء میں نہ صرف مسلم پرسنل لا کو ختم کر کے انفرادی زندگی کے نظام کو درہم برہم کر دیا گیا ۔انتہا یہ ہوئی کہ انگریزی لباس کو قانونی شکل دے دی گئی ،عربی زبان کا استعمال ختم کردیا گیا اور اسلامی عبادتوں پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ مذہب و معاشرہ کے جانے پہچانے طریقوں سے الگ ہو جائیں ۔اس قسم کے باطل قوانین کی مخالفت کرنے والے سیکڑوں علماء شہید کردئے گئے اور توپوں کے سائے میں اسلامی قوانین کو مٹایا گیا ۔ترک علماء اور عوام نے کبھی اس کو پسند نہیں کیا اور آخر کار ترکی حکومت اس قوانین کے بدلنے پر مجبور ہوئی اور آہستہ آہستہ پھر ترکی مسلم پرسنل لا کی طرف لوٹ آیا ،جس کی مثال موجودہ ترکی آپ کے سامنے ہے ۔

سوال اس سلسلہ میں پڑوس ملک پاکستان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے ،آپ کی نظر میں اس کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب جو لوگ پڑوس ملک کا نام لینے سے بدکتے ہیں وہ اس معاملہ میں پڑوس ملک کی دہائی دے کر ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے وہاں کی مثال پیش کرتے ہیں ۔
اس سلسلہ میں جو حقیقت ہے اس کا جاننا بہت ضروری ہے ،یقینا ماضی قریب میں کچھ تبدیلیاں پڑوس ملک میں لائی گئیں ،جس کا برابر ذکر خیر یکساں سول کوڈ کے حامی کرتے رہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ اگر چہ وہاں کی تبدیلوں کا زیادہ تر تعلق انتظامی امور سے ہے ۔لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ متعدد تبدیلیاں قانون شریعت کے خلاف ہوئی ہیں ،اور نہ صرف ہم ہندوستانی مسلمان بلکہ پاکستان کے لوگ بھی اسے غلط سمجھتے ہیں ۔جس وقت یہ تبدیلیاں لائی گئیں وہاں کے علماء نے زبردست احتجاج کیا اور عوام نے علماء کا ساتھ دیا ۔ مگر پاکستان کی فوجی حکومت نے احتجاج کرنے والوں کو جیل بھیج کر مسلم پرسنل لا کے کچھ حصوں کو بدل ڈالا ۔
سوال کیا ہندوستان کی جمہوری حکومت کو ترکی یا پاکستان کی فوجی اور آمرانہ نظام کو دلیل بنانا درست ہے ؟
جواب ۔۔۔اگر ہندوستان کی جمہوری حکومت پاکستان کو سامنے رکھ کر یا سسابق ترکی کی مثال بناتے ہوئے مسلم پرسنل کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہندوستان میں بھی ان دونوں ملکوں کی طرح آمرانہ فوجی نظام اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
سوال کیا اس وقت دنیا کے کسی ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہے ؟
جواب ۔۔ میری معلومات کے مطابق دنیا کے کسی ملک اور خطہ میں یکساں سول کوڈ نافذ نہیں ہے ،ہر ملک میں انتظامی امور تو یکساں ہیں لیکن شادی بیاہ ،نکاح طلاق اور زمین کی تقسیم لوگ اپنی ریتی رواج اور مذاہب اور آساتھا و عقیدہ کے اعتبار سے انجام دیتے ہیں، ایک زمانہ میں ملک نیپال کو ہندؤ راشٹر کہا جاتا تھا ،لیکن وہاں بھی بہت سالوں پہلے جمہوریت قائم ہوگئی ہے اور لوگ اسی نظام حکومت کو پسند کررہے ہیں ۔
ہمارے ملک ہندوستانی میں فوجداری ،تعزیراتی اور دیوانی قوانین سارے ملک کے باشندے کے لئے یکساں ہیں ،ان کے نفاذ اور اطلاق میں ہندؤ مسلمان سکھ عیسائی بودھ پارسی کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں ،سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے،فرق صرف پرسنل لا یعنی عائلی قانون کے بارے میں ہے ۔ تمام باشندے اپنے اپنے پرسنل لا پر عمل کرتے ہیں۔

نوٹ / انٹرویو کا اگلا حصہ کل ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔

دانش ایاز رانچی
معاون مدیر روزنامہ الحیات رانچی جھارکھنڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے