چاہے گرمی کا موسم ہو یا سردی کا موسم ہو یا بارش کا موسم ہو چاہے کوئی دن ہو، کوئی ہفتہ ہو، کوئی مہینہ ہو ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے کیونکہ خدمت خلق کا کوئی خاص موسم یا خاص وقت متعین نہیں کیا گیا ہے لیکن پھر بھی انسان کی زندگی میں کچھ ایام کچھ لمحات ایسے ضرور آتے ہیں کہ اس موقع پر ضرور خدمت خلق کے جذبے کا اظہار کرنا چاہئے جیسے تہوار کا موقع آگیا تو جس کے پاس فراوانی اور آسودگی ہے اس کے لئے تو کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن یہ دنیا ہے جہاں ہر طرح کے لوگ ہیں کچھ لوگ نیند کی گولی کھاکر سوتے ہیں تو کچھ لوگ دن بھر اتنی محنت کرتے ہیں کہ بستر پر لیٹتے ہی ان کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں اور وہ بے خبر سو جاتے ہیں، کچھ ایسے لوگ ہیں جو نرم نرم گدے پر سوتے ہیں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اخبار بچھا کر فٹ پاتھ پر بھی سوجاتے ہیں یہ اللہ رب العالمین کی جانب سے سسٹم ترتیب دیا گیا ہے،، جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص کو امیر ہونا چاہئے، ہر شخص کو دولت مند ہونا چاہئے ہر آدمی کو ایک جیسا ہونا چاہئے تو ایسا شخص قدرت کے قانون کا مذاق اڑا رہا ہے جبکہ اسے موقع در موقع سبق ملتا رہتا ہے مگر اسے احساس ہوکہ نہ ہو یہ الگ بات ہے،، جب ہوا چلتی ہے تو وہ ہوا سب کے لئے ہوتی ہے،، جب بارش ہوتی ہے تو وہ بارش سب کے لئے ہوتی ہے ایک میدان میں امیر و غریب کھڑے ہوجائیں اور امیر لاکھ چاہے کہ یہ ہوا صرف مجھے لگے اور اس غریب کو نہ لگے تو وہ ناکام ہی رہے گا،، ایک میدان میں ہاتھ پکڑ کر امیر و غریب دونوں کھڑے ہوجائیں اور بارش ہونے لگے تو اس بارش پر امیر صرف اپنا قبضہ جمانا چاہے تو ناکام ہی رہے گا،، اللہ نے اس اعتبار سے اصول و ضوابط کو ترتیب دیا ہے کہ اس کے اصول و ضوابط پر انگلیاں نہیں اٹھائی جا سکتیں بلکہ اس سے عبرت حاصل کی جاسکتی ہے اور نیکی کمائی جاسکتی ہے اگر سب کو ایک برابر بناتا تو دنیا میں سب حکمران ہوتے تو رعایا کون ہوتا، اگر سب ڈرائیور ہوتے۔ تو سفر کون کرتا، سب رکشہ مالک ہوتے تو بیٹھنے والا کون ہوتا،، انسان کو تو اس بات پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا، سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ لینے کی قوت اور صلاحیت عطا فرمائی ہے،، دنیا کی آبادی آٹھ ارب بتائی جاتی ہے اب آٹھ ارب انسانوں کے انگوٹھے کا فنگر الگ الگ ہے کسی بھی ایک شخص کے فنگر سے دوسرے کا فنگر نہیں ملتا یہ اس بات کا چیلنج ہے کہ قدرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے-
انسان نے برفیلی چٹانوں سے سوال کیا تو پگھلتی کیوں ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس لئے کہ میرے اندر غرور نہ آئے، میں اپنی اوقات نہ بھول جاؤں اور مجھے ہر وقت خیال بھی رہے اور یقین بھی رہے کہ میرا ماضی بھی پانی، میرا حال بھی پانی اور میرا مستقبل بھی پانی،، پانی سے وجود ہوا اور پانی میں مل جانا ہے اور ائے انسان سن تیری بھی حقیقت یہی ہے کہ تیرا بھی ماضی، حال اور مستقبل مٹی ہے تو دنیا میں لاکھ رعب و دبدبہ قائم کرلے، اچھا اچھا کھالے اور پہن اوڑھ لے، کسی کو سہارا دے کر اسے جینے کا حوصلہ دے یا طاقت کے زور پر کسی کا حق مارلے اور اس دوران پیاس بجھانے کے لئے چاہے نل کا پانی پی یا اسٹینڈر کمپنیوں کا مینرل واٹر پی لیکن یاد رکھنا ایک دن مرنا تجھے بھی ہے اور مٹی میں ہی مل جانا ہے اور یہی سچائی ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے والا چاہے امیر ہو غریب، سرمایہ دار ہو یا مزدور، بادشاہ ہو یا فقیر ہر ایک کے مرنے پر انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جاتا ہے چاہے کوئی بڑے بڑے منصب پر فائز کیوں نہ ہو اس کے مرنے کی خبر جب ملتی ہے تو الگ سے کوئی مخصوص چیز نہیں پڑھی جاتی بلکہ وہی پڑھا جاتا ہے جو ایک غریب و ناتواں شخص کے مرنے پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا گیا تھا-
ہاں ایک بات قابل غور ہے کہ انسانوں کی آبادی بڑھتی جاتی ہے مگر افسوس اس بات کا بھی ہے کہ انسانیت گرتی جاتی ہے بغض و حسد کی شکل میں، ذلت و رسوائی کی شکل میں، دل شکنی و دل آزاری کی شکل میں غرضیکہ آج ایسے بھی لوگ ملیں گے جو اپنے دکھ سے اتنا پریشان نہیں ہیں جتنا کہ دوسرے کے سکھ چین سے پریشان ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم برابر ایک دوسرے کا حال معلوم کرتے رہیں، آسانی و پریشانی کو سمجھتے رہیں اور اپنی ذات سے جہاں تک فائدہ پہنچانے کی بات ہوتو قدم آگے بڑھاتے رہیں، اپنی خوشیوں میں دوسرے کو بھی شریک کرتے رہیں جب کوئی تہوار کا موقع آئے تو جہاں اپنے لئے اور اپنے گھر کے لئے جو انتظامات کرتے ہیں تو اپنے دائیں بائیں بھی توجہ کر لیا کریں تاکہ وہ بھی خوشیاں منالیں ،، مذہب اسلام میں خدمت خلق کافی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدمت خلق انسانی ہمدردی کی روح ہے تبھی تو کہا گیا ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا،، اور انسان کہلانے کا اصل حقدار وہی ہے جو دوسروں کے لئے دل میں درد رکھتا ہو اور مذہب اسلام میں تو احترام انسانیت اور خدا کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے راہ سے پتھر ہٹا دینا، مسافروں کو پانی پلانا، کسی کے بوجھ کو اٹھانے اور منزل تک پہنچا نے میں مدد کرنا یہ سب صدقہ جاریہ ہے اور یہ سب کرنے سے نیکیاں بھی حاصل ہوتی ہیں اور مصیبتیں بھی ٹل تی ہیں.
تحریر: جاوید اختر بھارتی
سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی