آج تک چینل کے مطابق اترپردیش میں گذشتہ دنوں اجتماعی شادیوں کا انعقاد کیا گیا تھا ،جس میں8 مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کرچکی ہیں اور ان نوجوان لڑکیوں نے اسلام سے اپنا ناطہ توڑ لیاہے۔مسلم لڑکیوں کے مرتددہونے کی خبریں ملک بھر سے مسلسل موصول ہورہی ہیں،لیکن ایک ہی دفعہ8/مسلم لڑکیاں مرتددہوکر غیر مسلم لڑکوں سے جس علاقے میں شادیاں رچارہی ہیں وہ علاقہ بھارت کے مسلم اکثریتی علاقہ اترپردیش کا ہے،یہ وہی اترپردیش ہے جہاں پر ملک میں سب سے زیادہ،سب سے مشہور مدارس اسلامیہ ہیں،جہاں پر سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے،جہاں پر سب سے زیادہ علماء ہیں،مفتیان ہیں اور دارالفتوایٰ ہیں۔ باوجود اس کے اس علاقے میں دین سے بے راہ روی اختیارکرنےوالی مسلم لڑکیوں کی تعدادمیں روزبروز اضافہ ہورہاہے،جوکہ افسوسناک پہلو ہے۔سوال یہ ہے کہ اس علاقے میں دینِِ اسلام کی تبلیغ زیادہ ہے ،اہلِ علم کا دبدبہ ہے،اُس علاقے میں اس طرح کی حرکتیں کیسے ممکن ہورہی ہیں؟۔کہتےہیں کہ پیاراندھا ہوتاہے اور پیارکیلئے لوگ کچھ بھی کردیتے ہیں۔مگر یہاں پیار صرف اندھاہی نہیں بلکہ شرپسندوں کے جال کاشکار بھی ہورہاہے۔دیکھاجائے تو مسلمانوں میں سب سے زیادہ اصلاح معاشرے کے پروگرام منعقدکئے جاتے ہیں،اصلاح معاشرے کی تحریکیں چلتی ہیں،اصلاح معاشرے پر بیان بازیاں اور خطابات رکھے جاتے ہیں،باوجوداس کے معاشرے کی اصلاح کیوں نہیں ہورہی ہے،یہ ایک ایسا سوال ہےجس کا جواب ملتاتوہے لیکن اس پر تشریح کرنےوالوں پر ہی اہلِ علم گرم ہوجاتے ہیں۔کئی ایسے پروگرام جس میں اصلاح معاشرے کا عنوان دیاجاتاہے وہاں پر سماجی برائیاں،اخلاقی گراوٹ ،بدکرداریاں،بدعنوانیاں،شر،زنا،نشہ جیسے پوائنٹس پر غور کم ہوتاہے ،روشنی کم ڈالی جاتی ہے یا یہ پوائنٹس اُن پروگراموں کا حصہ ہی نہیں بن پاتے ،بلکہ مسلک کی تشہیر،مکتبوں کی تنقید اورایک دوسرے پرالزام تراشیوں کا سلسلہ رہتاہے۔اصلاح معاشرے کو محدود مدعوں پر رکھاگیاہے ،جس کی وجہ سے اصلاح معاشرے کا کام صحیح طریقے سے نہیں ہوپارہاہے۔عام طورپر اصلاح معاشرے کی تقریبات مسجدوں کے حدودمیں انجام دی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے جو پیغام سماج کے اُس طبقے تک نہیں پہنچتاجسے اس کی ضرورت ہے۔وہیں دوسری جانب لڑکیوں کے مرتددہونے میں سوشیل میڈیا کا بھی اہم رول ہے،جس میں لڑکیاں اپنے آپ کومارکیٹنگ کیلئےایک طرح سے پیش کردیتی ہیں۔سوشیل میڈیاپلاٹ فارم پر انسٹاگرام،فیس بک،واٹس ایپ،اسناپ چاٹ جیسے اپلیکیشن پر جس عریانیت اور بیہودگیوں کا مظاہرہ ہورہاہے وہ ناقابل بیان ہے،صرف نوجوان لڑکیاں ہی نہیں بلکہ شادی شدہ خواتین بھی اس طرح کے جال میں پھنستی جارہی ہیں۔حالانکہ کئی دن پہلے ہی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسلم لڑکیوں اور مسلم خواتین کو پھنسانے کیلئے لوٹراپ کے ذریعے کام کیاجارہاہے،مگراس سلسلے میں مسلمان اس قدر لاپرواہ ہوچکے ہیں کہ وہ اس لو ٹراپ کی باریکی کو سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے ہیں۔سوشیل میڈیاپر عورتیں یا لڑکیاں جب مصروف ہوجاتی ہیں تو ان کے اہلِ خانہ یہ سمجھتے ہیں یہ لڑکیاں یاخواتین سوشیل میڈیاکو پازیٹیو طریقے سے استعمال کررہی ہیں۔مگرجس سوشیل میڈیا یہ پازیٹیوسمجھ رہے ہیں ،دراصل وہ پازیٹیو نہیں بلکہ جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ہمارے نزدیک سب سے اہم مثال سیما حیدرکی بھی ہےجس نے حال ہی میں اسی موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے بھارت کا رخ کیاتھا۔اب اتنا سب کچھ کھلے طورپر سوشیل میڈیاکےنقصانات دیکھے جارہے ہیں تو کیوں عام لوگ ان سوشیل پلاٹ فارم سے اپنی بیٹیوں اور عورتوں کو محفوظ نہیں کرپارہے ہیں۔اس سلسلے میں غورکرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ازقلم: مدثر احمد
شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327