ازلی دنیا سے لوگوں کا ناپائدار عارضی رشتہ ،ایک مسلم حقیقت ہے ،مگر کچھ گوہر نایاب و تاب کار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی جدائی سوہان روح ثابت ہوتی ہے ،بلا شبہ عہد رواں کے ادیب ،خلیق وفہیم ،متین وزعیم مولانا محمد اسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ سابق استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند کی جدائی بھی امت کے لئے عظیم خسارہ ہے،مولانا محمداسلام قاسمی میرے استاذ تو نہیں تھے ،مگر غائبانہ میں ان کا عقیدت مند رہا ،ان کی تحریریں ضرورت سمجھ کر پڑھتا تھا،شوسل میڈیا میں وہ میرے دوست تھے ،ان کے تبصرے سےاکثر اتفاق رہتا ،مگر بعض تبصرے قابل تبصرے ہوتے تھے ،لیکن وہ خندہ پیشانی سے تبصروں کو برداشت کرلیا کرتے تھے،ان کی بیماری کا علم تھا ، مگرقلمی لہجوں میں وہ قطعا بیمار نہیں لگتے تھے ۔افسوس کہ میری ان سے کوئی بالقصد وبامراد،باضابطہ ملاقاتیں نہ ہوسکیں ،ہاں دیوبند قیام کے دوران ان سے راہ چلتے بعد عصر ایک سے زائد ملاقاتیں ضروررہی ہیں ،جن میں علیک سلیک سے زیادہ اور کچھ مزید نہیں۔ باوقارعلمی شخصیت ہونے کی وجہ سے ان وقتی ملاقاتوں کا اثرمیری زمانہ طالب علمی پر بھی چھایہ رہا اوربعد کے دنوں میں بھی ۔تاآں کہ مولانا کی وفات ہوگئی اور وہ رب قدیر اور محبوب حقیقی سے جاملے ۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔
ان کے انتقال کی خبر پر سب سے زیادہ غم اس ا مر کا رہا کہ اب ایسی وضع کے لوگ کہاں رہ گئے جو سراپا علم وادب اور “مرد خود آگاہ “ہیں عہد رواں میں دبستان دیوبند کے گویاشان وپہچان تھے مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی !
زندگی میں شان وپہچان کی بڑی اہمیت بھی ہے اور بڑی ضرورت بھی ،بلاشبہ مولانا مرحوم ہم سبھوں کی ضرورت اور شان وانعام تھے ، ان کی ایک شخصیت میں کئی روشن جہتیں تھیں ، وہ ہر زاوئیے میں الگ الگ رنگ وآہنگ میں نظر آتے تھے :گفتگو میں ان کا اپنا جمال تھا ،تدریس کا لب ولہجہ بھی خود ساختہ تھا ،قلم سے بکھرے موتیوں کا رنگ بھی پکا تھا ،فہم وفراست ،استغنی خلق خدا سے ربط و تعلق کی الگ ہی شان تھی ،اسٹیج پر میرکارواں ،خلوت میں مرد قلندر ،اور طلباء دارالعلوم کے بیچ جلوت نشینی میں نکتہ سنج شیخ الحدیث ۔سراپا کو دیکھنا ہو تو وہ آپ کو دور سے دکھ جاتے ،ان میں عام احباب کے لئے تکلف تھا، وہ پر تکلف ضرور جیتے تھے، ظاہر داری تھی، مگر تصنع اور نمائش سے پاک تھے،وہ تکلف بھی در اصل اجلے ذہن اور مزاج میں خوب روئی کی علامت تھا جو ان کے مربئ جلیل حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہ اللہ کی لانبی صحبت اور ہمہ رنگ مجلسوں سے نصیبے میں آیاتھا اور جو دم آخر تک مولانا مر حوم کی ذات اقدس پر فروزاں تھا۔مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب کے شعور کی بالیدگی اور فکر وفہم کی بلندیوں نے انہیں غیر معمولی طور پر معاصرین میں ممتاز بنادیا تھا ،وہ زمانہ طالب علمی سے ہی معاصرین میں الگ نام وصفات کے ساتھ امتیازی شناخت کے مالک تھے۔
میانہ قد، وجیہ چہرہ اور اکہرے بدن پر شیروانی کے ساتھ علم وادب کا گراں مایہ رعب ووقار خوب جچتا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اساتذہ سے ان کی وارفتگی ،ماننے اورمان کر جینے کا گن ،کتاب ودرس سے بے پناہ لگاؤجیسی خوبیوں نے ان کی شخصیت و صلاحیت کو عمر کے آخری پڑاو میں “ولایت” کا مقام بخش دیا تھا ،مولانادیگر بانصییبوں کی طرح آباواجداد کی طرف سے بھاری بھرکم نسبتوں کے مالک نہ تھے ،جس سے ان کو دبستان دیوبند کے بیچ وقار اعتماد حاصل ہوسکا ،بلکہ اس حوالے سے جو کچھ بھی ان کے پاس تھا،وہ ان کا اپنا سرمایہ تھا ،ذاتی محنت وکوشش سے انہوں نے مرکز علم وفن کے بیچ جگہ بنائی تھی اور مرکزیت حاصل کی تھی ،ان کی زندگی کا یہ حصہ اتنا سبق آموز ہے کہ ہر طالب علم کو پڑھنا اور سمجھنا چاہئے ،ان کے اندر حصول علم کی راہ میں جو تڑپ وبے چینی تھی اور کاروان علم وفن کے گرد،خود کو پامال کر دینے کا جوعزم وعمل تھا ،ان جیسی بے مثال خوبیوں نے ان کے نہ صرف قد کو بڑا بنایا ،بلکہ قد سے کیا ہوتا ہے، ان کی ذات کو انجمن بنادیاتھا ۔
ذاتی احساس یہ ہے کہ مولانا اپنے دھن اور مشن کے بڑے پابند رہے ،آتے جاتے گذرگاہوں کی ملاقات وزیارت سے راقم کوجو محسوس ہوا اور جس چیز نے ان سے متآثر کیا وہ ان کی “خود آگاہی” کی صفت تھی ،وہ راہ چلتے ہوئے بھی مانو کوئی نہ کوئی خاکہ سازی کررہے ہوتے تھے ،جس میں رنگ بھری کے لئے وقت کو برباد کرنا یا بے مقصد کی ملاقاتوں میں خود کو الجھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ایک جگہ مولانا احمد سجاد قاسمی ابن سابق مفتی دارلعلوم دیوبند مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی اپنے مضمون “ساتھیوں کا پیر مغان” میں لکھتے ہیں کہ اسلام بھائی دانشوری اور دیدہ وری میں بے مثال ،کتب بینی اور وسعت مطالعہ میں باکمال، اردو زبان و ادب میں ممتاز، عربی ادب کے گوہر مایہ ناز، مضمون نگاری اور انشاءپردازی میں اپنی مثال آپ، خوش قلم، اعجاز رقم، خط نسخ، خط نستعلیق، خط رقاع، خط کوفی اور بھی مختلف خطوط کے اپنے دور کے نادر و یکتا خطاط، گفتگو میں شستگی، تحریر میں برجستگی، رہن سہن میں سادگی کے ساتھ شائستگی، دوستوں سے بےتکلفی، آزاد مزاج، آزاد منش، سراپا اخلاص ۔۔۔ الغرض خواجہ حافظ شیرازی کے اس شعر کی ترجمان شخصیت۔۔۔۔
بس نکتہ غیر حسن بباید کہ تا کسے
مقبول طبع مردم صاحب نظر شود
بہت سارے اوصاف ایسے ان میں جمع تھے جس کی وجہ سے وہ محبوب دوستاں رہے، مجالس احباب میں وہ ہمیشہ میر مجلس رہے، دوستوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش، فراخ دل اور کشادہ چشم رہے، اور صحیح معنی میں انکی صحبت میں بہت جی لگتا تھا، احباب محسوس کرتے۔۔۔۔
آں روز بر دلم در معنی کشادہ شد
کز ساکنان درگہ پیر مغاں شدم
مولانا محمد اسلام صاحب کے بارے میں بعض ساتھیوں نے یہ بات بھی بتائی تھی کہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں غیر معمولی محنتی رہے اور بعد کے دنوں میں مطالعہ گویا ان کی خوراک بنارہا ،وہ یومیہ مطالعہ غذا کی حیثیت سے کرتے رہے ،طالب علمی سے زمانہ تدریس کے پورے دورانیئے میں انہوں نے اعتماد ووقار کا جو حصہ بھی پایا وہ بلاشبہ اپنی جفاکشی ،جہد اور روز و شب کے منصفانہ استعمال کی وجہ سے۔ اللہ پاک نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اوقات میں بھی بڑی برکت دی تھی ،انہوں نے خوب پڑھا اور ملت اسلامیہ کے لئے حسب توفیق خوب لکھا ،صلاحیت وصالحیت کی جامع شخصیت ،وہ سلجھے ذوق بھی رکھتے تھے ،اور ستھری تحریر کے مالک بھی تھے ،اب وہ نہیں ہیں مگر ان کے قلمی آبشارے،دنیا بھر میں پھیلے شاگرد، ان کی مغفرت کا سامان ،بلندئ درجات کا واسطہ اور ہم مستفیدین کے درد کا درماں ثابت ہوں گے ان شاء اللہ۔
تحریر: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے