عرب لیگ میں شام کی شمولیت

عرب ممالک میں عرب لیگ اور تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)کی بڑی اہمیت ہے، عرب لیگ کا قیام ۱۹۴۵ میں ہوا تھا ، اس کا صدر دفتر مصر کی راجدھانی قاہرہ میںہے، بائیس (۲۲) عرب ممالک اس کے ممبر ہیں، شام کے صدر بشار الاسد نے روس کے صدر ولادیمیرپوتین کی حمایت او راپنے ہی شہریوں پر مہلک ترین اور خطرناک کیمیاوی ہتھیار استعمال کرکے ظلم وستم کی نئی مثال قائم کی تھی جس کے نتیجے میں شام کا بڑا علاقہ قبرستان میں بدل گیا تھا اور بہت سارے شہری موت کے گھاٹ اتر گئے تھے ان حالات میں عرب لیگ نے ۱۲؍نومبر ۲۰۱۱ئ؁ کو اس کی رکنیت کو معطل اور منجمد کر دیا تھا، اس کے فوراً بعد تنظیم برائے تعاون اسلامی (OIC)نے شام کے بارے میں عرب لیگ کی تائید کرتے ہوئے اپنی تنظیم سے بھی دور کردیا تھا، لیکن اب حالات بدل گیے ہیں ۔ ترکی ، سعودی عرب ، مصر، تیونس ،عمان، اردن وغیرہ شام کی عرب لیگ میں شمولیت کے حق میں تھے،یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ لیبیا، شام لبنان ، عراق اور یمن سب کے احوال اس قدر خراب ہیں کہ بغیر اجتماعی آواز کے ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے پرانے گلے شکوے بھلا کر عرب لیگ نے اس کی رکنیت ۷؍ مئی ۲۰۲۳ء کو بحال کر دی ہے، اس عمل سے شام کی قوت میں اضافہ ہوگا اور بہت سارے کام اس کے سہارے کئے جا سکیں گے ، آگے بڑھنے کے لیے کبھی کبھی مضی مامضی یعنی جو گذر گیا وہ گذر گیاپر عمل کرنا ہوتا ہے اور سارے گلے شکوے بھلا کر ملنا ہوتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین پہلے ہو چکا ہے۔

ازقلم: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے