شہدائے کربلا کی نذر۔۔۔

شبیرؓمرے ساتھ ہو، کربل کا سفر ہو
ہوجاؤں میں قربان، مرا نیزے پہ سر ہو
ظالم! ترے آگے، مرا سر جھک نہیں سکتا
ہوں مرد مجاہد، مجھے کیوں موت کا ڈر ہو
میں ڈھال بنوں، تیروں کی برسات کو روکوں
اصغر کے عوض میرا کوئی لخت جگر ہو
صد حیف کے ٹوٹے وہ ستم آل علیؓ پر
پھٹ جائے زمیں ایسا ستم اِس پہ اگر ہو
یہ خواب مرا کاش کہ بن جائے حقیقت
ہاتھوں میں طمنچہ ہو، نشانے پہ شمر ہو
جس راہ پہ چلتا رہا حیدرؓ کا گھرانہ
تاعمر، وہی راہ، وہی میری ڈگر ہو
میں بھی ہوں کھڑا راہ میں اے آل محمدؐ
میری بھی طرف لطف کی بس ایک نظر ہو
جرات نہیں میری کہ لکھوں اُن پہ قصیدہ
چاہے جو خدا تو، مجھے حاصل یہ ہنر ہو
سردار ہوں جنت میں بھی وہ میرے رفیقیؔ
اُن کی ہی قیادت میں مری عمر بسر ہو

ازقلم: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے