قتل و غارت گری کی گرم بازاری

ہندوستان میں مودی دور حکومت میں نفرت کی سودا گری کو جس طرح رواج ملا اور مسلمانوں کے خلاف شعلہ بار تقریروں کاجو سلسہ شروع ہوا، اس نے ہندوستان کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر نقصان پہونچایا کہ صدیوں میں اس کو پاٹنا اور خون کے دھبوں کو دور کرنا ممکن نہیں ہوگا، خون کے یہ دھبے برسات کے پانی سے دھوئے نہیں جا سکتے، اور نفرت کی اس سوزش نے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے، اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔
ابھی چند دنوں قبل ہریانہ کے نوح اور گروگرام میں جو فساد پھوٹا اور گروگرام میں مسجد میں آگ لگا کر اور امام کو مار مار کر جس طرح شہید کیا گیا اس نے ہندوستان کی سیکولر عوام کو اندر سے بلا کر رکھ دیا ہے، اس کے بعد جے پور سے ممبئی جا رہی ٹرین میں چن چن کر قانو ن کے محافظ چیتن سنگھ کے ذریعہ قتل کرناتاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، جسے برسوں بھلایا نہیں جا سکے گا۔
اس واقعہ پرگودی میڈیا حسب معمول قسم قسم کی توجیہات کر رہی ہے ، چیتن سنگھ ذہنی طور پر دباؤ میں تھا، اس کی افسر سے جھڑپ ہو گئی تھی وغیرہ وغیرہ، لیکن جو ویڈیو کلپ اس موقع کی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اس میں وہ گولی مارتے وقت پاکستان سے آیا ہے، کہہ رہا ہے، پھر وہ تابڑ توڑ مسافروں پر گولیاں نہیں چلا رہا ہے، چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ کوچ کے دوسرے مسافر نہ تو اسے روک رہے ہیں اور نہ ہی اسے دبوچ رہے ہیں، بلکہ اطمینان سے تماشہ دیکھ رہے ہیں، جیسے انہیں یقین ہو کہ یہ جی آر ایف کا جوان اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا۔ ایسی بے حسی جب کسی ملک کے شہریوں پر طاری ہوجائے تو اس ملک میں محبت ناپید ہوجاتی ہے اور نفرت کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے۔
گروگرام کے واقعہ میں پولیس کی موجودگی میں دو سو کی بھیڑ مسجد پر حملہ آور ہوتی ہے، امام مسجد حافظ سعد کو پہلے مار مار کر شہید کرتی ہے، پھر پٹرول چھڑک کر مسجد کو آگ لگادیتی ہے، پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، اور پھر موقع سے فرار ہوجاتی ہے، نہ تو مسجد کو بچانے کی کوئی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی امام کو بچانے کی، گویا قانون کے محافظ کے ذہن میں بھی نفرت گھس گئی ہے، اور وہ بھی دنگائیوں کے ساتھ ہوجارہے ہیں۔
نوح فساد کا اصل مرکز تھا، جسے بجرنگ دل کے علاقائی لیڈر مونو مانیسر نے ویڈیو کلپ بھیج بھیج کر بھڑکانے کا کا م کیا، مونو مانیسر 15فروری2023کو بھوانی میں جنید وناصر کو گاڑی میں زندہ جلانے کا فراری ملزم ہے، اس کا اصلی نام موہت یادو ہے، بجرنگ دل کا علاقائی لیڈر ہے، سیاسی آقاؤں کے اشارے پر اب تک اس کی گرفتاری نہیں ہو سکی ہے اور وہ کسی خفیہ مقام سے لوگو ں کو فساد کرنے پر اکسارہا ہے، سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود بجرنگ دل کے لوگ تھانہ کے سامنے مسلمان کرایہ داروں، حجاموں، ریڑھی اور ٹھیلہ والوں کو نکالنے کے نعرے لگا رہے ہیں اور پولیس گیٹ بند کرکے خاموش کھڑی ہے، یو سی سی کے مسئلہ پر ناکامی کے بعد بھاجپا کے پاس اب یہی ’’مدّا‘‘ رہ گیا ہے کہ فساد بھڑکا کر مسلمانوں میں خوف پیدا کرو اور اکثریتی رائے دہندگان کو متحد کر لو، اس کا مطلب ہے کہ یہ صرف ٹرائل ہے پوری فلم آنی ابھی باقی ہے۔
ان حالات میں متحدہ حکمت عملی تیار کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم کب تک مسلمانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، قانون کے دائرہ میں رہ کر ہمیں کچھ پالیسی تیار کرنی ہوگی، مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم بے گناہ قیدیوںکی رہائی اور ان کے مقدمات لڑ نے پر اپنی توانائی صرف کریں، یہ ایک کام ہے اور اس محاذ پر بھی محنت ہونی چاہیے، لیکن مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم حکومت کو یہ باور کرائیں کہ

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے بہتا ہے تو رنگ لاتا ہے

یا پھر یہ کہ

جب ظلم گذرتا ہے حد سے قدرت کو جلال آجاتا ہے
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسی کوءی پیدا ہوتاہے

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے