ملک کے آئین کے مطابق مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری

  • ملی تنظیموں کے قائدین کی مرکزی و ریاستی حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات وقت کی اہم ضرورت۔

ہندوستان جمہوری ملک ہے، اس میں آئین کو بالا دستی حاصل ہے ، ملک کا آئین ملک میں بسنے والے ہر شہری کو جان ، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے ، حکومت آئین کے مطابق ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔
موجودہ وقت میں ملک میں نفرت کا ماحول قائم ہے ، خاص طور پر فرقہ پرست طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کردیا ہے ، مآب لنچنگ ، فرقہ وارانہ فساد وغیرہ کے واردات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ، جس کی وجہ سے مسلم سماج کے لوگوں میں ڈر اور خوب کا ماحول ہے ، خبر کے مطابق بہت سے صوبوں میں مسلمانوں کو گھر بار چھوڑ نے کی دھمکی دی جارہی ہے ، جس کی وجہ سے لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ جگہ پر منتقل ہونے پر مجبور ہورہے ہیں ، یہ بڑا المیہ ہے۔
موجودہ وقت میں ہر طرف نفرت کا ماحول ہے ، مسلم سماج کے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے ، ریل ،بس وغیرہ میں بھی سفر میں دشواری پیش آرہی ہے ، ایسے موقع پر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جان ،مال اور عزت و کے ساتھ اپنے دین و شریعت کے حفاظت کے لئے ملک کے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں ، چونکہ جان ،مال ،عزت و ابرو کی حفاظت کا حق ہمارے ملک کا آئین دیتا ہے ، ساتھ ہی مذہبی آزادی بھی ملک کا آئین ہمیں عطا کرتا ہے ، جان ،مال آور عزت و آبرو کی حفاظت کا حق ہمارا دین و مذہب بھی دیتا ہے ، اس لئے کسی بھی حالت میں اور کسی موقع پر کوئی بھی شہری بے خوف ہوکر آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی حفاظت کر سکتا ہے ، ملک کے آئین کے حساب سے ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے ،حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ھے کہ دھرم اور مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک نہ کرے ، شہریوں کے درمیان انصاف اور برابری کا سلوک کرے ، جو حکومت انصاف اور مساوات سے کام نہیں لیتی ہے ، اور اپنے شہریوں کے درمیان بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کرتی ہے ، اس کو پائیداری حاصل نہیں ہوتی ہے۔
موجودہ وقت ہندوستان میں اکثریت اور اقلیت کے درمیان نفرت کا ماحول قائم کردیا گیا ہے ، اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا عام کردی گئی ہے ، جبکہ اس ملک میں اکثریت کے لوگوں کو مسلمانوں کا ممنون ہونا چاہئیے کہ تاریخ کے مطابق مسلمانوں نے ہندوستان کی اکثریتی طبقہ کے لوگوں کو رہن سہن ، تہذیب و ثقافت ، کھانا پینا اور ایک متمدن قوم کی حیثیت سے جینے کا ہنر سکھایا ہے ، یہی نہیں ، اس ملک پر تقریبا 800 سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مسلم حکمرانوں نے عدل و انصاف کا نمونہ پیش کیا ، انہوں نے اکثریت اور اقلیت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ،اور مثالی کردار پیش کیا ، جب ملک پر انگریزوں کا تسلط ہوگیا ، تو ہر طرح کی قربانی پیش کر کے ملک کو آزاد کرایا ، ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانا تنہا اکثریتی طبقہ کے بس کی بات نہیں تھی ، آج جب ملک آزاد ہوگیا ، تو فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ اکثریت اور اقلیت کا سوال کھڑا کیا جارہا ھے ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے
موجودہ وقت میں جب ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا زور ہے ، حکومت کی ذمہ داری ھے اور میری بھی اپیل ہے کہ جہاں بھی فسادات کے واقعات رونما ہوئے ہیں ، وہاں حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے تحفظ کو یقینی بنانے ، اور جلد امن و شانتی کا ماحول کو یقینی بنانے ، بے قصور لوگوں پر کاروائی بند کی جائے ، اعلی سطحی جانچ کرائی جائے۔
موجودہ پریشان کن حالات میں ملی تنظیموں نے بھی برادران وطن کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ فساد پر قابو پانے کے لیے قومی یک جہتی کے کئی پروگرام کئے ہیں ، اور کر رہے ہیں ، بیانات بھی جاری کئے جارہے ہیں ، یہ بھی وقت کی بڑی ضرورت ہے ، ملی تنظیموں کے اقدامات قابل ستائش ہیں ، البتہ فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانا اور آئین کے مطابق مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرانا حکومت کی ذمہ داری ھے ، خبر کے مطابق بے قصور مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر سے گرایا جارہا ہے ، جو نہایت ہی افسوس کی بات ہے ، گھر کا کیا قصور ہے ،؟ اس کو منہدم کرنے سے کیا فائدہ ؟ حکومت اس پر غور کرے ، ایسے موقع پر ملی تنظیموں کے قائدین سے بھی اپیل ہے کہ مشترکہ اتحاد عمل بنائیں ،اور سب مل کر مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات کریں ، اور آئین کی روشنی میں تحفظ فراہم کرانے کی جانب توجہ دلائی جائے ، یہ کام زیادہ ضروری ہے ، اور بروقت اس پر کام کی ضرورت ہے ، امید کہ ملی تنظیموں کے قائدین اس جانب توجہ فرمائیں گے
اس موقع پر مسلمانوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ صبر و تحمل اور حوصلہ سے کام لیں ، افواہ سے بچیں ، سیکولر برادران وطن کے ساتھ تعلقات اور روابط کو مضبوط کریں ، اللہ تعالیٰ ملک کو امن و شانتی کا گہوارہ بنائے ، اور شر و فتنہ سے حفاظت فرمائے۔

تحریر: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے