15 اگست؛ یوم آزادی!‌ مسلمان کونسی آزادی کا جشن منائیں؟

آج کی تاریخ ہندوستان کے تاریخی اوراق میں بڑی اہم حیثیت رکھتی ہے، 15/اگست کو ہی ہندوستان نے طویل جد وجہد اور مسلسل کوشش و جفاکشی کے بعد برطانوی سامراج کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی، انگریزوں کی جارحیت سے چھٹکارہ پایا تھا، آج ہی کے دن ہم کو فرنگیوں کے مظالم سے گلو خلاصی ملی تھی۔ اور اس آزادی میں سب سے اہم کردار مسلمان علماء و عوام کا تھا، ہم نے آزادی کے لیے فضاء ہموار کی، جگہ جگہ پر تحریک آزادی ہم نے چلائی، جذبۂ آزادی سے اہلیان ہند کو ہم ہی نے سرشار کیا، برادران وطن کے پژمردہ قلوب میں حریت کی روح ہم نے پھونکی، خواب گراں میں مست لوگوں کو جھنجھوڑ کر ہم نے آزادی کا سنہرا خواب دکھایا “انقلاب زندہ باد” کا نعرہ ہم نے دیا، “ہندوستان چھوڑو” نعرے کے ہم خالق ہے، انگریزوں کے دانت کھٹے کرنے کے لیے برادران وطن میں بغاوت کا جذبہ ہم نے پیدا کیا، ان کے خلاف کامیاب منصوبے ہم نے بنائے، وطن پر آئی باد مخالف کے آگے چٹان کی طرح ہم ڈٹے رہیں، برطانوی سامراج کے نظام سے بازیابی کے لیے ہم پابند سلاسل رہیں۔ الغرض مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے/ وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے تحریک آزادی کے ابتدائی سوسالوں میں جدوجہد کے میدان میں قائدانہ کردار صرف مسلمان ہی ادا کرتے رہیں، بلکہ سو سالوں تک تن تنہا صرف مسلمان ہی انگریز سے لڑتا رہا، پھر چاہے وہ 1757ء/ میں بنگال میں ہوئی پلاسی کی جنگ ہو، یا میسور کی لڑائیاں ہو، 1764ء/ میں ہوئی بکسر کی جنگ ہو یا بالاکوٹ کا معرکہ، صرف مسلمان تھے اکیلے میدان میں ہمارے آباءو اجداد تھے، بلکہ برداران وطن کو تو اس وقت تک آزادی کا شعور بھی نہیں تھا جب ہم چار لڑائیاں لڑ چکے تھے، ہم گردنیں کٹوا چکے تھے، اس کے بعد دوسرے لوگ سامنے آئے، مگر ہم نے اپنا امتیازی کردار آزادی کی صبح تک جاری رکھا۔ اس ملک کو آزاد کرانے کی خاطر مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، گردنیں کٹوائی، گولیوں سے اپنے سینوں کو چھلنی کیا، پھانسی کے پھندوں کو چوم کر اپنا نام شہیدان قوم ملت کی فہرست میں سنہرے حروف سے نقش کروایا، سچ ہے کہ آزادی کے لیے جتنا ہم نے خون بہایا ہے اتنا کسی نے پسینہ بھی نہیں بہایا۔ ع

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

اتنی قربانیوں کے باوجود آج ملک کو آزاد ہوۓ 75 برس گزر چکے لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے آپ کو آزاد تصور کیا؟
ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کی سب سے بڑی اقلیت (مسلمانوں) کے ساتھ جو امتیاز بتدریج برتا گیا اور انہیں قومی دھارے سے الگ کرنے کی جو مسلسل کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے وہ حکمرانوں کے اخلاقی زوال کا ایک ادنی سا مظاہرہ ہے۔ آج ہماری قربانیوں کو تاریخ آزادی کے باب سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔
آج ملک کے کونے کونے میں آزادی کا جشن منایا جارہا ہے، تو وہی مسلمان بجائے جشن آزادی منانے کے یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم کونسی آزادی کا جشن منائیں؟
ہمارے مذہبی حقوق محفوظ نہیں کیا ایسی آزادی کا جشن منائیں؟ ہمیں ہماری شریعت پر عمل آوری سے روکا جاتا ہے کیا ایسی آزادی کا جشن منائیں؟ ہماری مسجدوں کو ڈھایا گیا اسلیے جشن منائیں یا ہمارے مدارس کو منہدم کیا گیا اسلیے؟ ہمارے پرسنل لاءز میں ترمیم کی گئی اسلیے خوشیاں منائیں یا ہمارے آئینی حقوق چھینے گئے اسلیے؟ ہماری ماؤں بہنوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں اسلیے خوشی منائیں یا ہمارے جان و مال محفوظ نہیں اسلیے؟ مسلمان اس ملک میں آزادی کا جشن کیسے مناسکتے ہیں کہ جہاں انتہائی جابرانہ طور پر انکے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور مسلمان اپنے خود کے ملک میں سرحدی جنگوں کی طرح پہاڑوں میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہیں۔ آخر وہ ماں کونسی آزادی کا جشن مناۓ کہ جسکی آنکھوں کے تارے کا اس کے سامنے بہیمانہ قتل کردیا گیا، آخر وہ باپ آزادی کا جشن کیسے مناسکتا ہے جسکے بڑھاپے کے سہارے کو اس سے چھین لیا گیا، آخر وہ بھائی کیسے خوشی منائیں کہ جس کی بہن کی عفت کو داغدار کیا گیا اور وہ آج تک کورٹ کے چکر کاٹ رہا ہے، آخر مسلمان اس آزادی کا جشن کیسے منائیں کہ جس آزادی کے بعد سے اب تک اس کو غلام رکھنے کی کوشش کی گئی ہو۔ بقول شاعر

ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا مگر آزادی نہیں آتی

حقیقت یہی ہے کہ ان وطن پرستی کا دعویٰ کرنے والے اخوت و بھائی چارگی کے قاتلوں نے یہی چاہا کہ مسلمان غلام رہے، کمتر رہے جھکا رہے، کبھی آگے نہ بڑھ سکے کسی بڑے عہدے پر فائز نہ ہوسکے۔
آخر مسلمان اس ملک میں کب تک پستی کا شکار رہیں گے؟ کب تک مسلمان اس ملک میں مظلوم و مغلوب رہیں گے؟ کب تک مسلمانوں کو ستایا جاۓ گا؟ کب تک ہمارے ساتھ غیر مساویانہ رویہ برتا جاۓ گا؟ کیا اسی لیے ہم نے اپنے خون جگر سے اس چمن کی آبیاری کی تھی؟ یہ ایسے سوال ہیں جس کا جواب نہ ہمیں پہلے حاصل تھا اور نہ اب دیا جانے والا۔

ازقلم: محمد فیضان الحق
sf356605@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے