تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ (قسط 1)

مصنف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی اور بالخصوص اُس کی آخری چند دہائیوں میں حاصل کی ہیں قرآنِ مجید اُنہیں آج سے 1,400 سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے قرآنی اُصولوں میں سے ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ اِبتدائے خلق کے وقت کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی کی صورت میں موجود تھا، جسے بعد ازاں پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اِس سے کائنات میں توسیع کا عمل شروع ہوا جو ہنوز مسلسل جاری و ساری ہے۔

قرآنِ مجید اِس حقیقت کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا.

(الانبياء، 21 : 30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔

اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ ’’رَتْق‘‘ اور ’’فَتْق‘‘ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ’رَتْق‘ کے معنی کسی شے کو ہم جنس مواد پیدا کرنے کے لئے ملانے اور باندھنے کے ہیں۔ ’فَتْق‘ متضاد ہے ’رَتْق‘ کا، جس کا معنی توڑنے، جدا کرنے اور الگ الگ کرنے کا عمل ہے۔ قرآنِ مجید نے آج سے 14 صدیاں قبل تخلیقِ کائنات کی یہ حقیقت عرب کے ایک جاہل معاشرے میں بیان کر دی تھی اور لوگوں کو یہ دعوتِ فکر دی تھی کہ وہ اِس حقیقت کے بارے میں سوچیں۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد بیسویں صدی کے وسط میں جدید علمِ تخلیقیات (cosmology)، علمِ فلکیات (astronomy) اور علمِ فلکی طبیعیات (astrophysics) کے ماہرین نے بالکل وُہی نظریہ منظرِ عام پر پیش کیا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک ’صفر درجہ جسامت کی اِکائیت‘ سے ہوئی۔ ’عظیم دھماکے کا نظریہ‘ (Big Bang Theory) اسی کی معقول تشریح و توضیح ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنسی معاشرے کی نشوونما کی تمام تاریخ حقیقت تک رسائی کی ایسی مرحلہ وار جستجو پر مشتمل ہے جس میں حوادثِ عالم خود بخود اِنجام نہیں پاتے بلکہ ایک ایسے حقیقی اَمر کی عکاسی کرتے ہیں جو یکے بعد دیگرے امرِ ربّانی سے تخلیق پاتا اور متحرک رہتا ہے۔

تاریخِ علومِ اِنسانی میں تخلیق و وُجودِ کائنات سے متعلق بے شمار نظریات پائے جاتے ہیں، جو اُس کے آغاز کی مختلف اِبتدائی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام نظریات ’لامحدُود کثافت‘ (infinite density) اور ’صفر درجہ جسامت کی اِکائی‘ (zero volume singularity) کی اِبتدائی حالت کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، مثلاً :

فرائیڈمین کا خاکہ (Friedmann Model)
عظیم دھماکے کا خاکہ (Big Bang Model)
ایڈوِن ہبل کا خاکہ (Edwin Hubble’s Model)
پنزیاس اور وِلسن کا خاکہ (Penzias & Wilson’s Model)
نئے پھیلاؤ کا خاکہ (New Inflationary Model)
بدنظم پھیلاؤ کا خاکہ (Chaotic Inflationary Model)
یا
اِکائیت کی تحوِیل کا خاکہ (Singularity Theorem Model)

جاری۔۔۔۔۔۔

  • تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ کی اگلی یہاں پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے