اگست 2021ء میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پچھلے چالیس برسوں کے بعد ملک سے تشدد اور جرائم کا خاتمہ ہوا ساتھ ہی بدعنوانی اور منشیات کی پیداوار میں واضح کمی آئی جو اس سے قبل ملکی و غیر ملکی کسی دور حکومت میں نہ آئی تھی۔ افغانستان کو غیر ملکی فوجیوں کا قبرستان کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین کے بعد امریکا کو بھی افغانستان سے بھاگنا پڑا۔ امریکا اور روس سے پہلے 1842ء میں برطانیہ کو بھی افغانستان سے بے نیل و مرام واپس جانا پڑا تھا۔ برطانیہ کی واپسی صرف ایک آخری سپاہی کی واپسی تھی۔ اس واپسی کو الزبتھ تھامس نے اپنی مشہور آئل پیٹنگ ’’ایک آرمی کی باقیات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جس میں ایک تنہا تھکے ہوئے مسافر کو اس سے بھی زیادہ تھکے ہوئے گھوڑے پر سوار مشکل سے زین تھامے دکھایا گیا تھا۔ یہ واحد سپاہی برطانوی فوج کا ملٹری سرجن ولیم برائڈن تھا۔ پھر افغانستان سے جانے والے سوویت یونین کے کمانڈر بورس گروموف کی تصویر موجود ہے جس میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ دریا آمو کا پل یاد کررہا ہے۔ امریکا فوج کا آخری سپاہی جنرل کرس ڈونا تھا جو مکمل جنگی لباس پہنے رائفل تھامے طیارے میں سوار ہونے کے لیے تیزی سے چلتا جارہا تھا۔ یہ امریکی انخلا اخلاقی اور عسکری لحاظ سے انتہائی تباہ کن تھا۔ سابق امریکی فوجی امریکی کانگریس کے سامنے اپنے بیانات میں اِسے انتہائی تباہ کن قرار دے رہے تھے۔ امریکی کانگریس نے تحقیق کی تو اس موقع پر دوسرے بہت سے افراد نے بھی اس کے نتیجے میں ذہنی صدمے اور اتحادیوں کو چھوڑ کر بھاگ جانے بلکہ ان کو تشدد کے ذریعے جہاز سے نیچے پھینکنے کا ذکر کیا۔ لیفٹیننٹ کرنل مان نے اس موقع پر کہا کہ ’’ویت نام سے لے کر شام کے کردوں تک امریکا نے اپنے اتحادیوں کو ان کے برے وقت میں چھوڑ کر بھاگ جانے کے ایک نظام کی وجہ سے آنے والی کئی نسلوں کے لیے اپنے منہ پر ایک گندی بدنامی ملی اور اب افغانستان میں یہ کیا‘‘۔ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے دوسرے دن طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ حکمران طالبان نے اپنے ملک سے آخری امریکی فوجی کی رخصتی کے دن کو قومی تعطیل کا دن قرار دیا ہے۔ طالبان نے ان دو تین سال میں ملک میں کافی مسائل پر قابو پایا ہے۔ اگرچہ افلاس اور بھوک کی شرح ابتدا میں بڑھی پھر اس پر امریکا نے افغانستان کا گیارہ ارب ڈالر کا سرمایہ منجمد کردیا۔ جس کے نتیجے میں مزید غربت کا اضافہ ہوا۔ عالمی پابندیوں کے بعد بیرونی امداد میں کمی نے بھی افغانستان کے معاشی بحران میں اضافہ کیا۔ طالبان نے سب سے پہلے پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول مضبوط کیا جو اس سے پہلے عشروں سے کوئی نہیں کرسکا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق طالبان حکومت نے 2021ء سے اکتوبر 2022ء تک ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔ سرحد پر کنٹرول کے ذریعے مجموعی ٹیکس کا 69 فی صد حصہ وصول کیا۔ چناں چہ کسٹم کا شعبہ طالبان حکومت کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ طالبان نے عشر اور زکوٰۃ کا نظام بھی نافذ کردیا ہے۔ افغانستان میں 99 فی صد شہری مسلمان ہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ و عشر سے ایک بڑی رقم حکومت کو حاصل ہوتی ہے۔ ایک اور بڑی کامیابی انہیں منشیات کے معاملے میں ہوئی ہے۔ اپریل 2022ء میں طالبان نے ملک بھر میں افیون کی کاشت پر پابندی لگادی تھی۔ اب افیون کی کاشت ایک جرم ہے، افیون کاشت کرنے والے کسانوں کی پوری فصل کو اُدھیڑ کر ضائع کردیا جاتا ہے۔ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کے مطابق دوبارہ کاشت کی صورت میں شرعی قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی۔ کسان اب افیون کی جگہ گندم اُگا رہے ہیں۔ برطانوی کمپنی ’’السیس‘‘ جو سیٹلائٹ تجربے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس کے مطابق افیون کی کاشت میں 80 فی صد کمی ہوئی ہے۔ اتنی بڑی کمی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یورپ کی جانب سے بھی افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں مسلسل کمی رپورٹ کی جارہی ہے۔ خبر رساں ادارے تسنیم نے بتایا کہ افغانستان میں منشیات کی کاشت پر پابندی کے بعد یورپی منڈیوں میں منشیات کی پہنچ میں کمی دیکھی گئی۔ آج ہلمند میں کسان کپاس، گندم اور لوبیا کی پیداوار کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہلمند وہ جگہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دنیا کی سب سے زیادہ منشیات کی سپلائی یہاں سے ہوتی ہے۔ جب کہ یہی امریکی فوجیوں کا سب سے بڑا اڈا بھی موجود تھا۔
غزالہ عزیز