چاند پر انسان نے واقعی قدم رکھا تھا، یا پھر دنیا کو دھوکا دیا گیا؟

چاند انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی رات کے اوقات میں انسان کے لیے روشنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز رہا ہے, تقریبا 50 سال پہلے جب روس نے پہلا انسان زمین کے گرد مدار میں بھیجا تو امریکا اور روس کے درمیان باقاعدہ خلائی دوڑ کا آغاز ہوا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر انسان کو بھیجنے کا اعلان کرنے کے بعد پہلی کوشش میں ہی انسان کو چاند کی سطح پر نہیں اتارا بلکہ اس سے پہلے چاند کی طرف بہت سی خلائی گاڑیاں بھیجی گئیں اور اس خلائی منصوبے کو “اپولو مشن” کا نام دیا گیا۔

16 جولائی 1969 کو اپولو 11 کی خلائی گاڑی 3 خلابازوں کو لے کر چاند کی طرف روانہ ہوئی۔

زمین سے روانگی کے 5 دن بعد 21 جولائی 1969 کو پاکستانی وقت کے مطابق رات 1 بج کر 17 منٹ پر اپولو 11 کی خلائی گاڑی چاند کی سرزمین پر اتری۔

6 گھنٹے بعد خلاء بازوں نے صبح 7 بج کر 56 منٹ بعد چاند پر قدم رکھا۔

چاند کی سطح پر اس مقام کو “ٹرانسکویلیٹی بیس” یعنی امن مرکز کا نام دیا گیا،اپولو کی اس خلائی گاڑی کے 2 حصے تھے جن میں سے ایک حصہ الگ ہوکر چاند پر اترا، جسے چاند گاڑی “ایگل” کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ پائلٹ گاڑی “کولمبیا” تھی جو کہ چاند کے گرد چکر لگاتی رہی۔

چاند گاڑی میں نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرین موجود تھے جبکہ مائیکل کولن پائلٹ گاڑی میں رہے۔

چونکہ مائیکل کولن زمین سے 3 لاکھ کلومیٹر دور اکیلے تھے اس لیے انہیں حضرت آدم کے بعد “دنیا کا سب سے تنہا انسان” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

چاند پر “ایگل” کے اترنے کے تھوڑی دیر بعد جب امریکی خلاباز نیل آرم اسٹرانگ نے چاند گاڑی سے نکل کر چاند پر پہلا قدم رکھا تو اس وقت ان کے الفاظ یہ تھے: “انسان کا یہ چھوٹا سا قدم، نوع انسانی کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے”۔

دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس سب کو محض ہولی وڈ فلم انڈسٹری کی شاہکار فلم کہتے ہیں۔

چاند تک انسان کے پہنچنے کے اس واقعے کو دھوکہ یا فراڈ کہنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سائنس کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔

اس تاریخی واقع کے منکرین اپنی بات کو دنیا کے سامنے صحیح ثابت کرنے کے لئے اپولو 11 مشن کے موقع پر دنیا بھر کو دکھائی جانے والی ویڈیو اور تصاویر پر کچھ اعتراضات کرتے ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑا اعتراض یہ کہا جاتا ہے کہ چاند پر صرف امریکا کا ہی جھنڈا لہرایا گیا۔

لوگ کہتے ہیں کہ سائنسدان بتاتے ہیں کہ 4 ارب سال پہلے چاند کی فضا موجود تھی لیکن شمسی ہواؤں اور چاند کی کم کشش ثقل کی وجہ سے یہ فضا ختم ہوگئی ہے اور اب چاند پر ہوا موجود نہیں ہے تو پھر اپولو 11 مشن کی تصویروں میں جب خلاباز نیل آرم اسٹرانگ امریکی جھنڈا قمری سطح میں گاڑھتے ہیں تو جھنڈا لہراتا دکھائی دیتا ہے لہذا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ سب زمین پر کسی ہولی وڈ فلم کی طرح فلمایا گیا۔

ان کا کہنا کسی بھی عام انسان کو درست لگے گا لیکن ایک اچھا سائنسدان وہ ہوتا ہے جو خود تحقیق کرے۔ اس لئے اگر ہم جھنڈے کی تصویروں کو غور سے دیکھیں تو ہمیں انگریزی حروفِ تہجی کے حرف “L” کی طرح لوہے کا راڈ دکھائی دے گا۔ اس جھنڈے کو راڈ زمین پر موجود جھنڈوں کی طرح سیدھا نہیں ہے بلکہ اوپر سے کپڑے کو سیدھا رکھنے کے لئے بھی راڈ لگایا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو جھنڈا ہوا کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے لٹکا رہتا اور کبھی واضح نہ ہوتا۔

اس حوالے سے دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قمری آسمان میں ستارے کیوں نظر نہیں آرہے، یہ اعتراض اکثر کیا جاتا ہے کہ زمین پر تو روشنیوں سے بھرے شہروں سے بھی آسمان میں ستارے دکھائی دیتے ہیں مگر چاند پر تو نہ فضا ہے نہ اور ہی کوئی آلودگی تو تصاویر میں ستارے واضع دکھائی دینے چاہیے، لیکن کوئی ستارہ نظر نہیں آتا۔

یہ بات بھی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے لیکن موبائل کیمرہ ہو یا ڈی ایس ایل آر کیمرہ سے اس کی وجہ بآسانی بتائی جا سکتی ہے۔

اکثر اوقات کچھ دیر تیز دھوپ میں وقت گزار کر اندر کمرے میں جائیں تو کچھ وقت کے لیے تمام کمرہ سیاہ نظر آتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد پورا کمرہ دکھائی دینے لگتا ہے۔

درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تیز روشنی میں آنکھیں خود کو اس طرح ترتیب میں لے آتی ہیں جس سے تیز روشنی میں چیزوں کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن جیسے ہی قدرے کم روشنی والے کمرے میں جایا جائے تو آنکھوں کو کم روشنی کے حساب سے خود کو ترتیب دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے، لٰہٰذا اس دوران کمرے میں بہت زیادہ اندھیرا محسوس ہوتا ہے

انسان نے کیمرہ آنکھ کو دیکھ کر ہی ایجاد کیا تھا لہذا کیمرے میں بھی اسی طرح کی 2 ترتیبیں پائی جاتی ہیں، جو تیز اور ہلکی روشنی میں تصاویر لینے میں مدد دیتی ہیں، ان ترتیبوں کو “ایکسپوژر سیٹنگ” کہا جاتا ہے۔

اپولو مشن کے وقت کیمرے اتنے جدید نہیں تھے کہ ان میں یہ صلاحیت پیدا کی جاسکے کہ وہ خود کو روشنی کے حساب سے ڈھال لیں، لہذا اپولو 11 میں استعمال ہونے والے کیمرے کی ترتیب زمین سے ہی کر کے بھیجی گئی تھی، چونکہ چاند کی سطح سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے بہت زیادہ روشن تھی لہذا کیمرے کی ترتیب اس طرح رکھی گئی تھی کہ وہ چاند کی روشن سطح اور خلابازوں کو صحیح طرح سے ریکارڈ کرسکے۔

اس ترتیب کی وجہ سے ستاروں کی مدھم روشنی کو یہ کیمرہ ریکارڈ نہ کرسکا، جس کی وجہ سے ہمیں تصویروں میں ایک بھی ستارہ نظر نہیں آتا۔

اس حوالے سے تیسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ تصاویر میں سایوں کی مختلف سمتیں کیوں نظر آ رہی ہیں اور دلیل دی جاتی ہے کہ تصاویر میں روشنی کا ذریعہ سورج نہیں بلکہ اسٹوڈیو میں موجود فلیش لائٹس ہیں۔

چونکہ روشنی ایک سیدھ میں سفر کرتی ہے اور زمین پر سورج کی روشنی سے بننے والے سائے ایک سیدھ میں بنتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج زمین سے تقریبا 15 لاکھ کلومیٹر دور ہے اور اتنی دوری پر روشنی کی شعائیں ایک سیدھ میں آجاتی ہیں لیکن اپولو 11 میں سایوں کی سمتیں دیکھ کر اس کی حقانیت پر شک سا ہونے لگتا ہے پر ایسا ہرگز نہیں ہے۔

آئزک نیوٹن کے پہلے قانون حرکت کے مطابق اگر کوئی چیز رکی ہوئی ہو تو اسے حرکت میں لانے کے لئے قوت لگانی پڑتی ہے اور اسی طرح اگر کوئی چیز حرکت میں ہو تو اسے روکنے کے لیے بھی قوت درکار ہوتی ہے۔

اس کو بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپولو مشن پر جو کیمرے چاند پر لے جایا گیا تھا وہ اس طرح بنایا گیا تھا کہ کیمرے کو کم یا بغیر حرکت دیے ارد گرد کے زیادہ حصے کی تصویر آرام سے لی جاسکیں، اس کیمرے میں “فش آئی لینز” یعنی مچھلی کی آنکھ کی طرح کا لینز استعمال کیا گیا تھا، یہ لینز اس طرح کا ہوتا ہے کہ جیسے ایک مچھلی آنکھ کو بنا حرکت دیے تمام منظر دیکھ لیتی ہے اسی طرح اس کیمرے کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے چوتھا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ چاند سے واپس آتی چاند گاڑی کی تصویر کس نے لی؟

1969 میں آج کے دن دنیا بھر میں نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن کو پہلی بار چاند پر چہل قدمی کرتے تو دکھایا گیا لیکن جب اپولو 11 کی چاند گاڑی واپسی کے لیے خلاء کی طرف واپس گئی تو وہ ویڈیو بھی دکھائی گئی، تو لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ ویڈیو کس نے بنائی، کیوں کہ کیمرے تو چاند گاڑی میں خلاباز ساتھ لے گئے تھے۔

درحقیقت ناسا اور روس کی جانب سے چاند پر اپولو مشن سے پہلے بہت سی خلائی گاڑیاں چاند پر بھیجی گئی تھیں جو چاند پر موجود تھیں اور یہ ویڈیوز بھی ان گاڑیوں پر لگے کیمرے سے بنائی گئیں۔

اس حوالے سے ایک اور بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ناسا نے چاند پر دوبارہ انسانی مشن کیوں نہ بھیجا؟

یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ اگر ناسا کے اس اپولو مشن میں سچائی ہے تو ناسا نے چاند پر دوبارہ انسان کو بھیجنے کی کوشش کیوں نہیں کی، حالانکہ اب تو جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے؟

دراصل انسان کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی زندگی کو تلاش کر رہا ہے اور اسی لیے چاند پر گیا تا کہ وہاں کا ماحول دیکھ سکے۔

مگر اپولو مشن میں چاند پر جانے والے 12 خلابازوں کی مدد سے یہ بات سامنے آئی کہ چاند پر فضا نہ ہونے کی وجہ سے دن کے وقت تیز درجہ حرارت اور رات کے وقت خون جما دینے والی سردی ہوجاتی ہے جو کہ انسانی زندگی کے لیے کسی قدر بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی، لہذا بار بار اربوں ڈالر خرچ کرکے چاند پر انسانی مشن بھیجنے کا فائدہ نہیں اس لیے وہی پیسے اب ناسا مریخ پر انسانی مشن بھیجنے کے لیے صرف کرے گا۔

اپالو مشن ایک اٹل حقیقت ہے اور چاند کے بعد انسان کا اگلا ہدف سیارہ مریخ ہے لیکن اگر انسان کی بنائی ہوئی خلائی گاڑیوں کی بات کریں تو 1970 کی دہائی میں خلا میں بھیجی گئی ناسا کی وائیجر ون اور وائیجر 2 اب ہمارے نظام شمسی سے باہر جا چکی ہیں اور ملکی وے کہکشاں میں اپنے راستے پر گامزن ہیں۔

مجھے امید ہے کہ 5 ارب سال بعد، جب ہمارا سورج اپنی عمر پوری کرکے پھٹ جائے گا اور انسانی تہذیب اس زمین کے نیچے دفن ہو جائے گی، مگر ہماری اگلی نسلیں اس کائنات میں اپنے لیے نیا گھر تلاش (نیا سیارہ) کر چکی ہوں گی۔

تحریر: سید منیب علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے