پرورش (Parenting) میں حوصلہ افزائی کی تاثیر

احساسات وجذبات، فکر وسوچ، عقل وشعور کا ادراک رکھنے والی الله کی سب سے اشرف مخلوق انسان ہے۔تعلیم وتربیت کے ذریعہ بچّے میں ذہنی وجسمانی، عملی واخلاقی، جذباتی و روحانی ہم آہنگی کی نشونما ہوتی ہے۔ بچّہ ایک زندہ باشعور ہستی ہے۔اس کی بنیادی خواہشات، پسند نا پسند، دلچسپیاں محسوس کرنے اور متاثر ہو نے، سوچنے، سمجھنے، برتنےاور تاثیر لینےکے مخصوص ڈھنگ اور Context قرینہ ہوتا ہے۔

مقصود ہو گرتربیتِ لعل بدخشاں

“تمام نعمتوں میں صالح اولاد بہترین نعمت ہے نیک اولاد مال ودولت، ثروت و حشمت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ان کی قدر کیجیے”

۔اضطراری قوتیں (Reflexee),استعدادیں (Capacity) جبلتیں اور جذبات(Instincts) فطرتاً ودیت ہوتی ہیں ۔انسان میں کم وبیش اٹھائس جذبے موجزن ہوتے ہیں جن میں منفی جذبات کا تناسب کم ہے۔نفرت، غصّہ، عداوت، حسد، جلن، لالچ، خوف زدگی، خود غرضی ،خود پسندی Egotist, سرکشی،ظلم،ناانصافی ،مایوسی ،توہم پرستی مضر صحت ہیں اور شخصیت کو داغ دار بناتےہیں۔
ہم اپنے بچّے سے جس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں اس کی شخصیت اسی سانچے میں ڈھلتی ہے۔(اسکرووائلڈ) ۔
Beethoven
کہتا ہے کہ
“Recommend your children, that alone can make them Happy, not gold. “
“اپنے بچّوں کو روپیہ پیسہ نہ دو بلکہ نیکی کی ہدایت کرو، انھیں صرف نیکی ہی سے مسرت مل سکتی ہے۔”
انسانی نفسیات اور فرد کی جبلّتوں میں احساس ،ذاتی اطمینان Self Satisfaction انتہائی قیمتی شئے ہے۔اس کا مجروح ہونا اور عزت نفس کو ٹھیس پہچنا منفی ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ نفسیاتی طور سے تخلیقی اٹھان، Self Esteem Need مجروح ہوتی ہے۔

چمن کے مالی اگر بنالیں موافق اپنا شعار اب بھی

چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر روٹھی بہار اب بھی

مثبت سوچ ، کامل شخصی نشونما ، نفس کی تربیت، تذکیہ اور ارتقاء کے لیے حو صلہ افزائ,قدردانیAppreciation اور تعریف سے مزید نکھرنے، بنے، سنورنے اور بہتر کارکردگی کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
شخصیت سازی میں Motivation اہم کردار ادا کرتا ہے۔فرد کے تمام جسمانی اور نفسیاتی ڈھانچوں کی کامل تنظیم کرنے کا نام شخصیت کی تعمیرہے۔

شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیر

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس کی واہ واہ میں

خود آگہی، تشخصِ،ذات، خود نظمی، سَمت سفر، وسعت خیالی، پرامُیدی،محبّت، مروّت، خوداعتمادی، تعظیم وتکریم، جرات و ہمت، خودتحریکی،Inspired nes, Self Perfection اپنی ذات کا احترام ہے تو اپنے دل ودماغ سے بے بنیاد خوف، مایوسی، یاس وقنوطیت اور زندگی کی تلخ یادوں سے کلیتًہ آزادی حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔
ذوق سلیم اورجذبات لطیف کی تربیت کے لیے گھر پہلا مدرسہ ہے ۔ذہن یہیں سے تربیت پاتا ہے۔اولاد میں
خوداعتمادی، ،مظبوط قوّت ارادی، قوت فیصلہ، محنت، لگن، کامیابی کا یقین، تخلیقی صلاحیتوں کے پروان چڑھانے میں باپ کا رول نمایاں ہوتا ہے۔
“بچہ باپ کے خون(نطفہ) اور سرشت کی منتقلی کا پرتو ہوتا ہے۔”

مٹتا ہے جہاں ایک تو بنتا ہے جہاں اور

ہماری یہ زندگی کسی طرح کی کڑواہٹ، ترش روی، بیزاری ،مایوسی، پس ہمّتی کے لیے نہیں ہے ۔بلکہ یہ پۃر عزم، پُر جوش، اُمنگوں، ترنگوں، شادمانیوں، پیار، محبت، سروروانبساط، خوش باشی اور پیار پانے اور پیاربانٹنے کے لیے دی گئی ہے۔

“محبت تلخ کو شیریں، مٹی کو سونا، نفرت کو محبّت اور درد و الم کو شفاء میں بدل دیتی ہے۔یہی محبت تکلیف کو راحت، قہر کو دلار اور قید وبند کو جنّت بنادیتی ہے۔یہ وہ چیز ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی، پتھر کو موم کر دیتی اور تن مردہ میں حیات تازہ پھونک دیتی ہے”۔( جلال الدین رومی)

ہمارے معاشرے کی اکثریت میں باپ غافل، ماں جاہل ہے۔ معاشرہ قدامت پسند اور دقیانوسی سوچ کو ہوا دیتا اور تربیت کے پرانے غیر نفسیاتی سانچوں میں ایک لکڑی سے سب کو ہانکنے کا روادار رہا ہے۔
جاری صدی کا یہ بہترین Reward ہے کہ یہاں فرد کی شخصیت کو تعلیم کے زیور سے متعصف کیا گیاہے۔اس کی اپنی عزتِ نفس، سوچ اوراس کےفیصلے کو ایک مقام دیا جانے لگا ہے۔ بچّوں کی دلچسپی ، مرضی اورشوق کو ترجیح دے کر تعلیم کا میدان منتخب کیا جانے لگا ہے۔سماج کی مظلوم صنف نازک کو اب گائے کی طرح اس کی مرضی کے خلاف شریک حیات بنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
مثبت ارتقاء سے جہاں فرد کی اصلاح ہوگی، شخصیت سنورے گی، وہیں ان افراد سے صالح معاشرے وجود میں آئے گااور ایک صحت مند ریاست کی تشکیل ہوگی۔
پرورش/Nurturing parenting کا بنیادی کام یہ ہے کہ پالن پوسن میں اپنے بچوں کی عزت نفس، ان کی دلچسی، مشغلوں، آداب معاشرت میں نفسیات، انعامیreward ،حوصلہ افزائی اور مسابقتی طریقہ کار کو بروئےکار لایا جائے ۔ ان کی خوبیوں اور اچھّے کاموں کی کھل کر سراہنا ،تعریف ،شاباشی اور حوصلہ افزائی کی جائے ۔اس سےان میں نکھار پیدا ہوتا یے ۔

من تو شدم تومن شدی، من تن شدم تو جاں شدی

تاکس نگو ید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

اپنے زیر دست کی کوتاہیوں پر گرفت،لعنت ملامت، ڈانٹنا ڈپٹنا، تنقیداور سزا دینے میں عفو ودرگزر کرنااورحد درجہ محتاط رہنا چاہیے۔دوسروں کے سامنے اپنے بچّوں کی بے عزتی، حوصلہ شکنی، تنقیص ،شکایت یا بے جا تنقید ،تادیب،توہین، ڈراوا،طعنے، خوف اور دہشت کے ماحول سے آپ ان کی شخصیت کو گہنا دیتے اور احساس کمتری کا شکار بنادیتے ہیں ۔
“بچوں سے برتاؤ میں شفیق معلّم اور مستبد حاکم کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے-“

کنکر پتھّر کی تعمیریں مذہب کا مفہوم نہیں

ذہنوں کی تعمیر بھی کیجے گنبد ومحراب کے ساتھ

ہمارے کاؤنسلبگ سینٹر پر اس طرح کے کافی کیسیز میں بچپن میں اولاد پر والدین کی زیادتی، خوف، مار، گالی گلوچ ،والدین کی آپسی لڑائی جھگڑے سے معصوم ذہن پر منفی نفسیاتی اثراتNeurocognitive Disordersکے کیس آتے رہتے ہیں۔

کند ہم جنس، باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز

از:عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

(مصنف عبدالعظیم رحمانی کی زیر تصنیف کتاب” پرورش” Parenting سے ایک مضمون )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے