سنو میری قوم کے نوجوانوں ، بہادر بیٹیوں ! کیا تم نے کبھی یہ محسوس کیا ہے تمہارے سرپرست کس اذیت سے گزر کر تمہاری پرورش کررہے ہیں ۔ اپنی خواہشوں کو اپنے سینوں میں دفن کرتے ہوۓ تمہارے لیے تمہاری پسند کی چیزوں کو فراہم کرنا ۔ جدید تعلیم سے آراستہ کرانے کےلیے ماؤں کا اپنے قیمتی زیوروں کو فروخت کرنا ۔ والد کمزور اور بوڑھے ہونے کے باوجود تمہارے لیے ، تمہارے مستقبل کےلیے مشقت کرنا ، اپنے پھٹے پوشاک کے ساتھ تمہارے اپڈیٹ فیشن کو پورا کرنا ، اپنی ضروریات کا گلا گھونٹ کر تمہاری اسکولی سرگرمیوں کے اخراجات کو بلا چوں چرا پورا کرنا ،، طبیعت ناساز ہونے کے باوجود باپ کا صرف اس لیے باہر نکلنا کہ حاصل شدہ پیسوں سے وہ اپنے جوان ہوتے بچوں کی پرورش ان کی خواہش کے مطابق کرسکے ۔ اور آپ ۔۔۔ یہ ساری محنت ، مشقت ، محبت کو بے دردی سے روندتے ہوۓ غیر محرموں کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنی جوانی تباہ کررہے ہو ۔۔ محبت بھی ایسی جو آپ کو نشے میں مبتلا کردے ، جو آپ کو جھگڑے فساد کا عادی بنادے ۔ نہ حال کی کوئی پرواہ ، نہ مستقبل کا کوئی خواب ۔ نہ والدین کی عزت کی پرواہ نہ ہی اپنی ذات کی توقیری کا خیال ۔۔ کیا ایسے ہوتے ہیں مسلمان ۔ کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف اتنا ہی رہے گیا ہے کہ بے راہ روی میں زندگی گزار دے ۔
میں یہاں ایک اہم نکتے پر توجہ چاہوں گی ۔ ﷲ رب العزت نے اپنے ہر بندے کی ضروریات کی چیزیں اس دنیا میں فراہم کی ہیں ۔ جسمانی ضروریات کی تکمیل کےلیے ہر شئے میسر ہے حتی کہ جو رشتے ہمیں عطا کیے گئے ہیں والدین ، دوست احباب کی صورت میں یہ بھی جسم کی ایک ضرورت ہے ۔ آپ ﷺ پر وحی کا نزول فرما کر ربِ کریم نے ان رشتوں کے تقدس کو بھی واضح کیا ہے ۔علاوہ ازیں جسم کی نفسانی ضرورت کی تکمیل کےلیے بھی ﷲ تعالی نے جائز طریقہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ میں جس سے مخاطب ہوں چوں کہ یہ نوجوان طبقہ ہے یہ زندگی کے عنفوان شباب کے دور میں ہے جو زندگی کا سنہرا دور بھی کہلاتا ہے ۔سب سے خوبصورت دور ۔ ہر شۓ اپنی چمک سے زیادہ روشن اور آنکھوں کو خیرہ کررہی ہوتی ہے ۔ دل ہمک ہمک کر پہلو میں آ بیٹھتا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ جو چیز اسے پسند آۓ فوراً اسے مل جاۓ ۔ دماغ اگر حقیقت سے آگاہ بھی کراتا ہے تو دل کی ضد پر اسے پسپا ہونا پڑتا ہے ۔
مخالف جنس کی طرف کشش شدت سے بڑھنے لگتی ہے ۔ اور یہ ہی کشش غیر محرم سے دوستی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ ہم بظاہر یہ کہہ رہے ہوتے ہیں ہم صرف دوست ہیں ۔لیکن اس دوستی کے پسِ پردہ خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ کبھی باتوں سے تسکین کے ذریعے تو کبھی ملاقات کے ذریعے ۔ جس کا مقصد محض اتنا ہی ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے دل بہلا رہے اس کی تشفی کا سامان فراہم ہوتا رہے ۔ اور یہ تشفی کے حصول کا انجام کار انتہائی درد ناک اور افسوس ناک ہوتا ہے ۔ غیر محرموں سے دوستی سب سے پہلے آپ کے ایمان کو کمزور کرتی ہے ۔ آپ کے دل میں گھر والوں سے متعلق باغیانہ جذبات ابھارتی ہے۔ آپ کو ہر وہ شخص برا لگنے لگتا ہے جو آپ کی اس حرکت کو بُرا کہے۔ آپ گناہوں کے دلدل میں پھنستے جاتے ہو اور المیہ تو یہ ہے کہ اب اسے فطری کشش کا نام دے کر پڑھا لکھا طبقہ بھی بُرا نہیں گردانتا ۔ بالکل یہ ایک فطری جذبہ ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس فطری جذبہ کی تکمیل کےلیے ﷲ نے راہیں بھی تو ہموار کی ہیں ۔ ہم کیوں پیچیدگیوں میں بڑھ کر گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں ۔کیوں کہ ہم ہر شئے وقت سے پہلے چاہتے ہیں ۔ جس محبت کا دم ہم بھرتے ہیں آخر یہ کیسی محبت ہے جو تمہیں اپنی ہی نظروں میں بزدل بنادے ، والدین کے سامنے مجرم بنادے ، معاشرے میں عزت کو نیلام کردے ، ﷲ سے ہمیں دور کردے اور گناہوں سے ہمیں قریب کردے ۔ ہماری جوانی گناہوں میں مبتلا کردے ۔ یہ محض ایک وقتی جذبہ ہے جسے ہم لمحہ بہ لمحہ پروان چڑھاتے ہیں اور جب یہ تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو غیر اخلاقی اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ بس پھر کچھ دنوں کے بعد ہی محبت کا بخار اتر جاتا ہے اور زندگی کی تلخ حقیت منہ پھاڑے آپ کا انتظار کررہی ہوتی ہے ۔ایک بات گرہ باندھ لے والدین کی نافرمانی اور احکام الہٰی کی خلاف ورزی کرکے کوئی محبت تمہیں سکون نہیں دے سکتی ۔
میری قوم کے نوجوانوں ﷲ نے ہر چیز کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے ۔مخصوص وقت پر وہ چیز آپ کو مل کر ہی رہی گئی۔ اسی طرح آپ جس خواہش کی تکمیل میں ہلکان ہورہے ہو ﷲ نے اس کےلیے ایک جائز اور خوبصورت طریقہ بتایا ہے ۔اس کےلیے بھی آپ کو صبر کرنا ہوگا۔ والدین کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوۓ ایک بہتر انسان بننا ہوگا۔ اول اس بات کو ذہن میں نقش کرلیں کہ وقت سے پہلے کسی بھی چیز کی حصول کی طلب آپ کو ذہنی و جسمانی طور پر تباہ کردے گی ۔ جس طرح ایک بچے کی وقتی ضرورت ہلکی غزائیں ہوتی ہیں وہ براہ راست قوی غذا کا استعمال کرۓ تو اس کے جسم کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ حالانکہ وہی غذا بڑھتی عمر کے ساتھ اس کی ضروریات میں شامل ہو جاتی ہے۔بالکل اسی طرح جوانی کے دور میں تربیت و تعلیم اور اخلاق آپ کی بنیادی غذا ہے ۔ اسے پہلے آپ حاصل کرۓ ۔اس کے بغیر کسی بھی چیز کا حصول آپ کے ذہنی و جسمانی صحت کےلیے انتہا مضر ہے ۔کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے ہر شۓ کے حصول کا ایک وقت منتخب کیا ہے ۔وقت سے پہلے کی طلب آپ کو مختلف طریقے سے نقصان پہنچاسکتی ہے۔ موجودہ دور میں آپ بآسانی اپنے اطراف کا جائزہ لے سکتے ہو۔ نوجوان نسل میں بڑھتا ڈپریشن ، انزائیٹی ، ذہنی تناؤ بالکل عام ہوچکا ہے ۔۔ ذہنی امراض کی بنیاد ہی یہ ہےکہ ہم وقت سے پہلے خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ ہم بنا محنت و مشقت کے پُر تعیش زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔
ہمارے آئیڈیل اب مشہور و معروف اداکاروں نے لے لی ہے ۔ہم انکی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے رول ماڈل ایسے لوگ ہوچکے ہیں جن کی زندگی خود عفریت کا شکار ہے جو خود گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں ۔کیا ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چل کر سکون ہماری زندگی میں شامل ہوسکتا ہے ۔ قطعاً نہیں ۔ اس خوش فہمی سے نکل آیں۔آج آپ جس انتشار کا شکار ہو مستقبل بھی اسی طرح منتشر ہوگا ۔کیوں کہ ﷲ کے احکام کی خلاف ورزی کرکے ، والدین کو دھوکا دے کر اور وقت سے قبل طلب کرکے آپ کبھی بھی سکون کے حصول کا گمان بھی نہیں کرسکتے ۔سرفرازی تو بہت دور کی بات آپ کو عزت کی زندگی گزارنا بھی دشوار ہوجاۓ گا ۔۔
لہذا میری قوم کے بہادر نوجوانوں اس بات پر غور کرو کہ آج آپ جس مقام پر کھڑے ہو کیا واقع یہ ہی زندگی ہے ۔ دن چڑھے بستر سے لاغر اور کمزوروں کی طرح اٹھنا نام و نہاد تعلیم حاصل کرنا ، والدین کے زور بازو پر خواہشوں کی ایک لمبی فہرست کو مرتے دم تک پورا کرتے رہنا ۔ محبت کے نام پر دیوانوں جیسی زندگی گزارنا ۔کیا ایک مسلم نوجوان بطور انسان ، شہری ، طالب علم ، اس طرح کی زندگی ڈیسیرو کرتا ہے ۔ یقیناً نہیں ۔ ہم مسلمانوں کی تو منفرد شان رہی ہے عزت ، محنت ، فعالیت غرض کے سب میں اعلیٰ تکریم کے لائق رہے ہیں ہم ۔ کیوں کہ ہمارا مقصد ہمیں بالکل واضح ہؤا کرتا تھا ۔ ہمارے ذہنوں کی تربیت اس انداز سے ہوا کرتی تھی کہ گناہوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ہم پاک دامن ہوا کرتے تھے ۔جس شئے پر ہمارا لمس لگ جاۓ وہ برکت کا منبع ثابت ہوتی تھی ۔ غیر محرموں کی محفلیں ہمارے لیے حرام ہوا کرتی تھی ۔لیکن اب یہ سب ناپید کیوں ۔۔ سوچیں اس پر محاسبہ کریں اور یہ دیکھیں کہ ہماری ذات کس طرح ان سب چیزوں سے عاری ہوچکی ہے ۔
میری قوم کے نوجوانوں ! یہ جو جوانی ہے ﷲ کو اس کی عبادتیں بہت پسند ہیں کیوں کہ جوان شخص میں عقل ، جذبہ ، جنون ، طاقت ، بانسبت بوڑھوں اور بچوں سے زیادہ ہوتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا “اللہ تعالی! اس نوجوان سے خوش ہوتے ہیں کہ جو اپنی خواہشاتِ نفس کی طرف مائل نہ ہو “
ﷲ کی رضا طویل عبادتوں میں نہیں ہے بلکہ اپنی ذات کو گناہوں سےنفس کی شرانگیزی سے بچا کررکھنے میں ہے ۔
ہمیں چاہیے کہ صبر کرے ، انتظار کرے ، اور خود کی تعمیری شخصیت پر توجہ دۓ۔ مصروف ہونے کےلیے اچھے کاموں کا انتخاب کرے ۔کیوں کہ فراغت شیطان کے وار کا بہترین وقت ہے
لہذا خود کو کتابوں کے مطالعہ میں ، مختلف کورسز میں ، تعلیم میں ، مصروف رکھیں ۔ والدین کی نصیحتوں پر عمل کریں تاکہ کامیابی آپ کا مقدر ہو ۔
علامہ اقبال علیہ رحمہ نے نوجوانوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل انسان بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو ان اوصاف سے آراستہ کرلیں جو خود ان کی نشونما اور ترقی کے لیے ضروری ہیں اور جو عظیم قوم کی تعمیر و تشکیل کے لیے معاون بن سکتی ہیں ۔
مذکورہ عنوان کےطور پر لیا گیا شعر اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے نوجوانوں کےلیے لازم ہے کہ وہ متحرک رہے ہیں بڑے معرکے سر کرے اور ایسے ہی نوجوان قابل محبت ہے قابل تقلید ہے۔
اقبال ؔکا مثالی نوجوان خود دار ، تعلیم یافتہ ،یقیں محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے آپ نوجوانوں سےمخاطب ہوکر کہتے ہیں ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
تحریر: خان شبنم فاروق