یکساں سول کوڈ: تعبیر کا فریب

ہمیں متواتر یہ تسلی دی گئی کہ یکساں سول کوڈ عملا ممکن نہیں، یہ قبائلیوں سمیت فلاں فلاں عقائد والوں کو بھی نامنظور ہوگا؛ اس لیے خاص مسلمانوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، وہ یکساں سول کوڈ کے دس فریقوں میں سے ایک ہیں۔

فرقہ پرست مفکرین، سیکولر جماعتوں اور ملی نمائندوں سے زیادہ اسمارٹ ہیں، یکساں سول کوڈ واقعی غیر عملی ہے، ہندوستان کا تکثیری ومتنوع معاشرہ اس کا قطعی متحمل نہیں، اس بات کا ادراک آپ سے زیادہ وہ رکھتے ہیں؛ لیکن ان کی نظریاتی قاموس میں یکساں سول کوڈ کا مفہوم ان عائلی شرعی احکام تک محدود ہے جو صریح طور پر قرآن وحدیث میں مذکور ہیں اور جن سے سبک دوشی اسلامیانِ ہند کے لیے ممکن نہیں، یہیں سے ان کی سیاست کا خمیر اٹھتا ہے اور یہی ان کا ہدف ہے۔

یکساں سول کوڈ والے کسی رسم ورواج سے تعرض کرنے نہیں جارہے، ٹھیک اسی طرح جیسے ایک ریاست سے خصوصی اختیارات ختم کرنے کے موضوع پر، دیگر کوئی ریاست زیر بحث نہیں آئی تھی، ان کے یہاں یکساں سول کوڈ کے معنی اسقاطِ شریعت کے ہیں؛ مگر جدید سیاست میں عناوین خوب صورت اختیار کیے جاتے ہیں، وہ محمد واحمد کو ماریں گے؛ مگر تعبیرات کا پردہ اور واسطہ رکھیں گے، میری معرفت میں جدید سیاست نے ایک ہی مرد کا بچہ پیدا کیا، اس سے میری مراد سابق امریکی صدر ہے، باقی سارے کردار منافق ہوئے۔

جب کسی قبیلے، ذات، دھرم اور فکر کی روایتیں، رسم ورواج اور طرزِ بودوباش مبینہ یکساں سول کوڈ کا موضوع ہے ہی نہیں تو کوئی مذہب یا ذات برادری آپ کی ہم نوا کیوں ہوگی؟ اور اس درجہ خوش گوار لقمۂ تر کو وہ نظر انداز کیوں کریں گے؟

مہذب سیاست میں آلودہ حرکتیں خوب صورت نعروں اور معقول تعبیرات پر تکیہ کرتی ہیں، عنوان “ایک ملک ایک قانون” کا ہوگا؛ مگر قلمِ حذف صرف آپ کے مسلمات پر گردش کرے گا، باقی سو استثنائی قوانین بدستور قائم رہیں گے، وہ ان کے دائرۂ تشویش سے خارج اور ذائقۂ زبان سے ہم آہنگ ہیں۔

تحریر: محمد فہیم الدین بجنوری
14 ذی الحج 1444ھ 3 جولائی 2023ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے