آج 18 ذی الحجہ خلیفۂ ثالث کا یومِ شہادت ہے۔ حضرت عثمانؓ غنی کی مظلومانہ شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اندوہ ناک اور تاریک باب ہے۔ جس کے بعد مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا آغاز ہوا اور اُمّت مسلمہ پھرکبھی متحد نہ ہوسکی۔ ان کی شہادت کے وقت کسی صحابی نے آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ آج اہلِ عرب ہلاک ہوگئے۔ لوگوں نے عثمان غنی کو شہید کرکے اپنے اوپر فتنوں کا وہ دروازہ کھول لیا ہے جو روزِ قیامت تک بندنہیں ہوگا۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت امت مسلمہ کا پہلا فتنہ ہے۔ اس امت کا سب سے آخری فتنہ دجال کا خروج ہوگا۔
ان کی شہادت کے بعد دو دنوں تک نعش مبارک اسی جگہ بے گور و کفن پڑی رہی۔ ان کی نعش کی بے حرمتی کی گئی۔ تیسرے دن چند خوش قسمت مسلمانوں نے ہمت کرکے اس خونی لباس میت کو کندھا دیا۔ جس شخص نے بارہ سالوں تک مسلمانوں کی رہنمائی اور اسلامی خلافت کی سربراہی کی ہو اس کی تدفین میں فقط سترہ مسلمان ہی شرکت کرسکے۔ اور پھر کتابُ اللہ (قرآن) کے سب سے بڑے خادم اور رسول اللہ کے سب سے پسندیدہ داماد کو جنت البقیع کے ایک گوشے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا گیا۔ ان کے عہد خلافت میں قرآن کریم جمع کیا گیا۔ مسجد حرام اور مسجدنبوی کی توسیع ہوئی۔ اور قفقاز ، خراسان ، کرمان ، سیستان ، افریقیہ اور قبرص فتح ہو کر سلطنتِ اسلامیہ میں شامل ہوئے۔ نیز انہوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔ سارا مدینہ ان کے خریدے ہوئے کنویں سے پانی پیتا تھا۔ مگر وہ خود 40 دن پیاسے رہ کر جامِ شہادت نوش فرما کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین یَا رَبَّ العَِالمین
تحریر: فرمان مظاہری بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی(یوپی)