یکساں سول کوڈ پر غیر ضروری کنفیوژن

ری ایکشن نہیں ، البتہ ایکشن کی ضرورت

مسلمانان برصغیر کی تین حصوں میں تقسیم کا سبب بننے والے امام الہند مرحوم نے بھارت میں بچے کھچے مسلمانوں کو عاجز و درماندہ ہوکر رہنے کا جو پاٹھ پڑھایا تھا اس کے زیر اثر آج تک مسلمان اپنے دینی و ملی وجود کے معاملے میں دفاعی یا رد عمل کی کیفیت میں چلے آرہے ہیں ۔ رد عمل کی کیفیت بھی دھیرے دھیرے کمزور پڑتی گئی ہے اور نوبت یہ آگئ ہے کہ ردعمل کو بھی ایک بے کار عمل سمجھا جانے لگا ہے۔ عافیت پسند، بے عمل اور معذرت خواہ ذہنیت کے لوگ مسلمانوں کو ردعمل سے بچنے کا مشورہ دینے کو اپنی دانش مندی سمجھتے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ “عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکے تقدیر کا بہانہ”۔ عمل ہو ، نہ ردِعمل ہو تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خود کو حالات کے حوالے کردو ، “چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی”۔ جدو جہد اور مزاحمت تمہارے لئے موت ہے اور دریا کے بہاؤ کے ساتھ اپنی کشتی کو بہنے دینا ہی تمہاری تقدیر ہے اور اسی میں تمھاری عافیت ہے ۔ یہ ناعاقبت اندیش اور جاہلانہ دانشوری ساری دنیا کی قوموں کو چھوڑ کر ہم مسلمانان ہند کے حصے میں آئی ہے ۔

یکساں سول کوڈ پر مسلمان رد عمل میں آئیں یا نہ آئیں، ہر دو صورتوں میں اسلام دشمن حکومت کی کامیابی ہے۔ یہ اس کی الیکشنی حکمت عملی بھی ہے اور دیرینہ مقصد و منصوبہ بندی بھی ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ اپنے آپ میں کوئی الگ مسئلہ نہیں ہے ، یہ اس اصل مسئلہ کا ایک ضمنی پہلو ہے جس کو مسلمانان ہند کی عام قیادت شروع سے نظر انداز کرتی آرہی ہے اور آج بھی اسے باور کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ بنیادی مسئلہ کیا ہے ؟ یہ ہے مسلمانوں کے دین و ایمان اور ان کے ثقافتی وجود سے ہندوؤں کے دل و دماغ میں بیٹھی ہوئی شدید نفرت ۔ جو ازلی اور ابدی ہے ۔ جب ہم ہندوؤں کے دل و دماغ کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ہندو کہے جانے والے ہر فرد اور ہر طبقے سے ، یا ہندو عوام سے نہیں ہوتی۔ بلکہ ہندو مذہبی قوم کی تشکیل کرنے والے اور ہندوؤں کی مذہبی و ثقافتی قیادت کرنے والے گروہ سے ہوتی ہے ۔ یہ بات بھی واضح رہنا چاہئے کہ اس گروہ میں صرف برہمن یا نام نہاد اعلی ذات کے ہندو ہی نہیں ہیں بلکہ کسی بھی جاتی سے تعلق رکھنے والا ہر وہ فرد اس میں شامل ہے جو اپنی دھارمک اور سانسکرتک پہچان پر گرو کرتا ہے ، اور جو یہ چاہتا ہے کہ “ہندو دھرم” پھلے پھولے اور دیگر تمام دھرموں پر چھا جائے۔ یہ جذبہ چوں کہ کسی مثبت اپیل اور اخلاقی دعوت سے پورا نہیں ہوتا اس لئے یہ ہمیشہ سے ایک تشدد پسند اور نفرت آمیز جذبہ ہے جو سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے ۔ چوں کہ اسی جذبے کانام ہندو ہونا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ ہندو قوم کے دل و دماغ میں بیٹھی ہوئی نفرت ہے ۔ ہندو قوم کی قیادت ہمیشہ سے دوسرے تمام دھرموں کی شدید دشمن رہی ہے اور خاص طور سے اسلام اور عیسائیت سے اس کی دشمنی تو اعلانیہ ہے ۔ اس میں بھی اسلام اور مسلمان اس کے نزدیک سب سے بڑے دشمن ہیں کیونکہ’ ہندوؤں ” کی بہت بڑی تعداد کو اسلام نے ہندو دھرم سے نکال دیا ہے اور صدیوں سے ہندو دھرم کے قلب میں براجمان ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ ہندو ذہن کے نزدیک وہ ہندو دھرم ہی تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب سے ختم کیا تھا ۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ کعبے کی دیوار میں جو کالا پتھر لگا ہے وہ شیو لنگ ہے ، (نعوذ باللہ)۔

تو صاحبو! ایسی دشمن قوم سے ہمارے بعض اکابرین نے یکجہتی، بھائی چارے اور تحالف کا ڈول ڈالا تھا ۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندو دھرم کے قائدین نے مسلمانوں کی اس سادگی سے فائدہ تو ہمیشہ اٹھایا لیکن اس بھائی چارے کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا ۔ اس کی سب سے بڑی مثال “سب سے اچھے ہندو مذہبی و سیاسی قائد ” گاندھی جی ہیں جنھوں نے محمد علی جوہر جیسے عبقری شخص کو الو بنادیا ۔ بی اماں اور علی برادران کی خلافت تحریک کو گاندھی جی نے ترک موالات تحریک میں بدل کر پہلے تو اپنا سیاسی مقصد پورا کیا اور پھر پیچ چوراہے پر لاکر اس تحریک کی ہوا نکال دی۔ گاندھی جی نے اپنے عمل سے یہ بتایا کہ ہمیں تمہاری خلافت سے کیا مطلب! ہمیں تو اپنا الو سیدھا کرنا تھا ۔ اسی طرح ہر قسم کی ہندو قیادت اور سیاست مسلمانوں کے یک طرفہ بھائی چارے سے اپنا الو سیدھا کرتی آرہی ہے اور مسلمانوں کی قیادت کبھی مجہول ہوکر اور کبھی عاجز و مجبور ہوکر ہندوؤں سے دوستی کے راگ الاپتی ارہی ہے ۔

یہ ہے وہ حقیقی مسئلہ جسے باور کرنے کی ضرورت ہے، اور ساتھ ہی یہ اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ساری غلطی قرآن و سنت کی رہنمائی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوتی آرہی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہو؟ تو یا اولی الباب! اس کا حل یہ ہے کہ ایک اصولی موقف اختیار کیا جائے اور اس پر ڈٹ جایا جائے ۔ یہ اصولی موقف یہ ہوگا کہ بھارت کی موجودہ اسٹیٹ مختلف فرقوں اور طبقوں کے درمیان ایک مفاہمت کا نتیجہ ہے، اسی مفاہمت کی بنیاد پر دستور بنا ہے اور اسی بنیاد پر ریاست کی تشکیل ہوئی ہے۔ یہ مفاہمت اس بات پر ہوئی ہے کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا ، لیکن ہر فرقہ اور ہر فرد اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی پر امن تبلیغ کے لئے آزاد ہوگا ۔ اور تمام فرقے ایک دوسرے کے ساتھ خیر سگالی کا رویہ رکھیں گے۔

قرآن و سنت کی رہنمائی یہ ہے کہ جب تم کسی دوسرے فریق سے کوئی معاہدہ کرو تو اپنی طرف سے اسے پورا کرو۔ لیکن اگر دوسرا فریق اس معاہدے کو عملا پورا نہیں کرتا تو تم بھی معاہدے سے اعلانیہ دست بردار ہو جاؤ۔ اس روشنی میں مسلمانوں کا اصولی موقف یہ ہونا چاہئے کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کا تعلق خیر خواہی کا نہیں بلکہ دشمنی اور لوٹ مار کا رہا ہے ۔ ریاست کا نظام کسی نہ کسی طرح آمن کو قائم رکھتا ہے لیکن یہ ہمیشہ ہندوؤں کی طرف داری کرتا ہے اور مسلمانوں کا استحصال اور ان کی حق تلفی کرتا ہے ۔ اب یہ نظام ہندووادی طاقتوں کے ہاتھ میں آچکا ہے اور ریاست کا کردار عملاً بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے ۔ لہذا اب مزید ساتھ ساتھ نہیں چلا جاسکتا ۔ لہذا ہندو قیادت مسلمانوں اور دیگر تمام فرقوں و طبقوں کی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر یا تو تجدید عہد کرے یا ریاست کی تشکیل نو پر آمادہ ہو ۔

اس اصولی موقف پر ڈٹ کر مسلمانوں کی مخلص قیادت کو فعال ہوکر تمام دوسرے غیر مطمئن فرقوں اور طبقوں کو ساتھ لے کر ایک اجتماعی تحریک برپا کرنی ہوگی جس کا مقصد ہندو قیادت کو اپنے جارحانہ عزائم سے پیچھے ہٹنے یا پھر اجتماعی مزاحمت کا سامنا کرنے کے لئے مجبور کرنا ہوگا ۔ یہ اصولی موقف بظاہر بڑا جوکھم بھرا معلوم ہوتا ہے ، لیکن واقعتا یہی سیدھا سچا راستہ ہے اور ایک اقدامی عمل ہے ۔ اس اقدامی عمل کا جوکھم مسلمان اگر نہیں اٹھائیں گے تو بھی انہیں قتل و غارت گری کے بھیانک حادثات جھیلنا ہی ہوں گے ، اور ایسی صورت میں ان کا کوئی رد عمل یا مزاحمت بھی ان کے کام نہ آئے گی کیوں کہ اس میں ان کی اپنی کوئی منصوبہ بندی اور حکمت عملی شامل نہیں ہوگی۔ جیسا کہ حکیم الامت کہہ گئے ہیں:

ترا تن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
تن بے روح سے بے زار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے

تحریر: عدیل اختر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے