ڈاکٹر نورالسلام ندوی
ڈاکٹرمولانامحمدعالم قاسمی علمی،ادبی،مذہبی اورسماجی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں،ان کانام جاناپہچانااورمشہورومعروف ہے، یوں تو مولاناایک مستندعالم دین اورباوزن امام وخطیب کی حیثیت سے خاصے مشہورہیں،لیکن قلمی اورتحریری دنیامیں بھی کم مشہورنہیں ہیں۔ تقریباًایک درجن کتابیں ان کے گہربارقلم سے نکل کراوراشاعت پذیرہوکرمقبول ہوچکی ہیں۔ان کی تازہ تصنیف ’’نقوش تابندہ ‘‘ منتخب مضامین ومقالات اورتبصرے کامجموعہ ہے۔248صفحے پرمشتمل یہ کتاب بنیادی طورپردوحصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصہ میں اٹھارہ مضامین ہیں،ان میں پانچ متفرق مضامین ہیں،اور بقیہ شخصیات پرہیں۔پہلے مضمون کاعنوان ہے ’’قرآن کریم اوراس کے اردو تراجم‘‘اس مضمون میں قرآن کریم کے اردو تراجم کے آغازوارتقاء کااختصارسے جائزہ لیاگیاہے اوراہم تراجم اوراس کی خصوصیات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرامضمون بھی اسی سے ملتاجلتاہے۔ اس مضمون میں علماء دیوبندکے قرآن کریم کے مشہور اردو تراجم کے حوالے سے گفتگوکی گئی ہے۔مضمون کی قرأت سے اس بات کااندازہ ہوتاہے کہ قرآن پاک کے اردوتراجم کے بارے میں علماء دیوبندکے کیاکارنامے ہیں اس مضمون میں مولانامحترم نے بہارسے تعلق رکھنے والے دوفاضل دیوبندکے ترجمے کابطورخاص ذکرکیاہے۔ ایک مولاناخالد سیف اللہ رحمانی اوردوسرے مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی ،مصنف مولاناقاسمی کے ترجمہ قرآن تسہیل القرآن کے بارے میں تحریرکرتے ہیں:
’’اردوزبان میں ترجمہ کی کثرت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک تغیرپذیرزبان ہے اورہرنصف صدی میں اس کاایک نیاقالب تیارہوتاہے۔ پھرایک ہی موضوع پرکئی اہل علم قلم اٹھاتے ہیں توسب کی تحریروں میں الگ الگ خوبیاں محسوس ہوتی ہیں کہ صاحب تحریر کاذوق ،ان کا مطالعہ اور ان کی فکریں ان میں جھلکتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ ترجمہ صرف شرف سعادت کے لیے نہیں بلکہ ایک ضرورت کی تکمیل ہے۔جس میں لسانی ارتقا کا لحاظ رکھتے ہوئے نئی تعبیرات کے ساتھ تفہیم و ترجمانی کی گئی ہے۔‘‘
ایک اہم مضمون ’’بہار میں اردو صحافت‘‘کے عنوان سے ہے۔یہ مضمون بہت جامع اور عمدہ ہے ۔اس میں صحافت کی اہمیت و افادیت اور ملک و معاشرہ پر اس کے اثر ونفوذپر روشنی ڈالتے ہوئے صحافت کی تعریف اوربہارمیں اردوصحافت کے آغازوارتقاء کاجائزہ پیش کیاگیاہے۔بہارکی اردوصحافت پرتقسیم ہند کے کیااثرات مرتب ہوئے؟اورآزادی کے بعداردوصحافت کاکیارخ رہا؟اورآج کس مقام میں ہے! ان تمام باتوں کوتحریرمیں لاگئی ہیں۔جس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ مولاناکی نظراردوصحافت پربھی گہری ہے۔ حالانکہ بہت سے اخبارات ورسائل کاذکراس مضمون میں آنے سے رہ گیاہے۔مضمون میں ادبی صحافت پربھی گفتگوکی گئی ہے بلکہ ادبی صحافت کاحصہ قدرطویل ہے۔ انہوں نے آزادی کے بعدجاری ہونے والے ادبی رسائل میں ندیم ،سہیل،معیاراورمعاصرکا ذکرکیاہے۔ جبکہ یہ وہ رسائل ہیں جوآزادی سے قبل جاری ہوئے۔ندیم کی اشاعت گیاسے جون1931میں ہوئی اس کے ایڈیٹرمشہورطنزومزاح نگارانجم مان پوری تھے۔ اس کے معاون مدیرعبدالقدوس ہاشمی تھے۔دسمبر1948میں یہ رسالہ بندہوگیا۔معیار1936میں جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹرقاضی عبدالودودتھے، اس کے صرف چھ شمارے ہی شائع ہوئے اور رسالہ بندہوگیا۔ سہیل1939میں گیاسے منصہ شہود پرآیا، اسے حافظ مولوی عبدالرحمن بسمل نے جاری کیاتھا۔ معاصر1940میں منظرعام پرآیااس کے ایڈیٹرعظیم الدین تھے۔ 1983تک یہ رسالہ جاری رہا۔ پروفیسرکلیم الدین احمداورقاضی عبدالودودبھی اس رسالہ سے وابستہ تھے۔
اس حصہ کے دیگرمضامین میں مناظراحسن گیلانی اوران کے تصنیفی کارنامے،مولانامنت اللہ رحمانی کی دینی خدمات ،کلیم عاجزکی شاعری کامتنوع پہلو، ظہیرصدیقی ایک روشن ضمیرشاعر ،صف اول کا نقاد کلیم الدین احمد اپنی تلاش ہیں،قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا ابو الکلام آزاد، امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی ایک عبقری شخصیت وغیرہ بے حد اہم اور قابل مطالعہ ہیں ۔ان مضامین و مقالات کے مطالعہ سے نمائندہ علمی شخصیات ، ان کے احوال و آثار اور نقو ش حیات سے واقفیت ہوتا ہے۔
دوسرے حصے میں 19تبصرے ہیں جو مختلف کتابوں پر تحریر کئے گئے ہیں۔ان تبصروں کے پڑھنے سے بہت سی کتابوں اور اس کے مصنفین سے آشنا ئی ہوتی ہے۔یہ تبصرے مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تنقیدی و تجزیاتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ان میں مولانا کے تنقیدی جو ہر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ تبصروں میں خوبیوں اورخامیوں دونوں پر نظر رکھی گئی ہے۔ گوکہ خامیوں پر نظر کم ہی گئی ہے۔آج کل عموماًتبصرے میں تعارف اور تعریف کاپہلونمایاں ہوتاہے، انہوں نے اپنے تبصرے میں اعتدال وتوازن کوراہ دی ہے، مولاناکے تبصرے میں ایسے اشارے اورجملے ملتے ہیں جن سے ان کی تنقیدی خوبی کاپتہ چلتاہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ مولاناکوتنقیدوتبصرہ سے خاصالگاوہے اورتبصرے وتجزیئے کااچھاذہن انہوں نے پایاہے، زبان وبیان پربھی اچھی پکڑہے، البتہ ان کامزاج کریدکرکسی کی خامی اورعیب تلاش کرنانہیں ہے، دوران مطالعہ جوخوبی نظرآئی اس کااعتراف دل کھول کرکیاہے اوراگرکچھ خامی دکھائی دی ہے تواسے بھی خوبصورتی کے ساتھ بیان کردیاہے کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو،اس لئے خامیوں پرنظرڈالتے ہوئے ایسااندازاسلوب اختیارکئے ہیں جودل کوگھائل نہ کرے۔
مصنف نے بارہ صفحات پرمشتمل ’’عرض مصنف‘‘ کے عنوان سے تحریرکیاہے۔اس میں انہوں نے اردوادب کی تاریخ پرروشنی ڈالی ہے۔ خاص طورپراردوادب کی تاریخ رقم کرنے میں علما
ء کرام کے کردارکوواضح کیاہے، کتاب کایہ حصہ بھی اہم اورمعلوماتی ہے۔ کتاب کے شمولات اورمضامین متنوع ہیں، یہ اس بات کاواضح اشارہ ہے کہ ان کے مطالعہ کاکینوس کافی وسیع ہے،اورمصنف کومتنوع موضوعات پرلکھنے کی قدرت حاصل ہے۔صفحہ نمبر223اور224پرایک ایک غزل شامل ہے اس سے پہلی مرتبہ ادبی حلقے کومولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی کی شعری صلاحیت کاعلم ہوا۔غزل کامطالعہ اس بات کاغمازہے کہ مولانا اپنے اندرکافی عرصہ سے شعری جوہرچھپائے ہوئے تھے جوبالآخرباہرنکل آیاہے۔ہمیں امیدہے کہ آئندہ مولانااس فن میں بھی اپنی جولانی طبع کاخوب خوب مظاہرہ کریں گے اورشعری سرمایہ میںاپنی تخلیقات کے ذریعہ اضافہ کریں گے۔
من حیث المجموع یہ کتاب عمدہ اورقابل مطالعہ ہے۔ زبان وبیان شگفتہ ،رواں اورسلیس ہے ،البتہ جگہ جگہ کمپوزنگ کی غلطیاںراہ پاگئی ہیں۔ خاص طورپرمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی تحریر’’حرف چند‘‘میں بے شمارغلطیاں ہیں۔کتاب کے آغاز میں حضرت مولانامحمدمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی،حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی،حضرت مولاناسیدشاہ تقی الدین احمدفردوسی ندوی،مولاناابونصرفاروق صارم عظیم آبادی، پروفیسر محمد عابدحسین،مولانامفتی محمدنافع عارفی قاسمی نے اپنے تاثرات میں مولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی اورکتاب کے بارے میں جن خیالات اور تاثرات کااظہارکیا ہے۔اس سے کتاب کی اہمیت اورصاحب کتاب کے علم وفضل اورمقام ومرتبہ کااندازہ لگانامشکل نہیں۔دینی اور عصری علوم کے امتزاج نے مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کے قلم و تحریر میں عصری شگفتگی اور تازگی پیدا کر دیا ہے۔میں اس کتا ب کی اشاعت پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کر تا ہوں کہ مولانا کا قلم آئندہ بھی اسی طرح تعب و تھکن سے نا آشنا رواں دواں رہے گا۔
Dr. Noorus Salam Nadvi
Vill+Post Jamalpur
District Darbhanga
Bihar, 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com