جامعہ عربیہ منہاج السنہ مالونی میں حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدرملی کونسل کاموجودہ حالات پر خصوصی خطاب
ممبئی ۔ ملک کے موجودہ حالات مدارس کے احوال اور روزانہ مسلمانوں کو در پیش نت نئے مسائل کے تعلق سےمولانانوشاداحمدصدیقی کی صدرات ومفتی محمدانصارقاسمی کی سرپرستی میں ایک مجلس منعقد کی گئی جس میںآل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمان قاسمی نے روشنی ڈالی اور مسلمانوں کو دعوت فکر وعمل دی، مولانا قاسمی نے جامعہ عربیہ منہاج السنہ مالونی میں علماء ائمہ اور دینی مدارس کے طلباء واساتذہ سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے تلقین کی کہ اگر کوئی طالب علم خواہ وہ مدرسے کا ہو یا کالج کا اس کیلئے لازم ہے کہ وہ کم از کم ۱۲ تا ۱۴ گھنٹے محنت کے ساتھ پڑھائی کرے،ایسے طالب علم کی کامیابی کی ضمانت دی جاسکتی ہے، اس کے برخلاف جوطلباء اس ترتیب سے پڑھنے کا اہتمام نہ کر یں انہیں نا کام ہونے سے بھی کوئی نہیں بچا سکتامولانا نے موبائل، وہاٹس ایپ، انسٹا گرام اورسوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم سے پیغام رسانی کے تعلق سے کہا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے نوجوان موبائل پر وقت ضائع کرنے کو کیوں اتنا پسند کرتے ہیں؟ اور وہ ہر غلط سلط میسج پر اپنا تبصرہ کیوں کر ضروری سمجھتے ہیں،مولانا نے اس جانب توجہ دلائی کہ سوشل میڈ یا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت، زہر افشانی اور اسلام کے خلاف جوریشہ دوانیاں کی جاتی ہیں، اسے پولیس افسران تک پہنچانے میں کیوں ہم پیچھے رہ جاتے ہیں، بلکہ ہمارے نوجوان بھی اسے مزید عام کر کے ایک طرح سے نفرت پھیلانے والوں کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں،کیا وہ نفرت والے پیغامات کو پولیس کے اعلی افسران کو بھیج کر ان سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ اس سے امن وامان میں خلل کا اندیشہ ہے، ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، ملی کونسل کے قومی نائب صدر نے آرایس ایس، بی جے پی اور اس کی ہمنوادیگر جماعتوں کی کامیابی اور اس کے تعلق سے مسلمانوں کی جانب سے کئے جانے والے تبصروں کے تعلق سے کہا کہ ہمیں کیا ضرورت پڑ جاتی ہے کہ ہم اپناوقت ان کی مخالفت میں صرف کر یں؟ آخر ہم ان سے کچھ کہنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم نے کبھی دیکھایا معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ جن کی ہم برائی کر رہے ہیں یا جن کو کوسنے میں لگے ہوئے ہیں ان کی منصوبہ بندی کتنی پختہ ہوتی ہے؟ وہ کتنا سوچتے ہیں؟ کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں؟ اور مسلسل کرتے ہیں،یاد رکھے کبھی شور مچانے برا بھلا کہنے سے یاکسی کے خلاف غصہ ہونے یا بھڑاس نکالنے سے ترقی ممکن نہیں ہے بلکہ ترقی کا ضابطہ یہ ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے ، جہد مسلسل پر لگا جائے ،اورعمل کی فکر کی جائے ،مولانانے علماءوائمہ کے تعلق سے بھی کہا کہ جب کوئی عالم ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری اس وقت سے بڑھ جاتی ہے، اس کیلئےپوری امت کی اور پوری ملت کی فکر ضروری ہو جاتی ہے، محض پنج وقتہ جماعتوں کے اہتمام کرانے اور مقتدا بننے کا نام ہی امام ہونا نہیں ہے اور نہ ہی ڈیڑھ گھنٹہ ان پانچ وقتہ جماعتوں کے اہتمام میں صرف کرنے کے بعد ایک امام کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے بلکہ ایک امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ محسوس کرے، اپنا جائزہ لے کہ اس نے ملت کیلئے قوم کیلئے اور ملک کیلئے کتنا وقت دیا اور کس طرح کی منصوبہ بندی کی اور درپیش مسائل سےکتنی آگاہی خود حاصل کی اور اس سے دوسروں کو کتنا آگاہ کراتے ہوئے انہیں بیدار کرانے کی کوشش کی ،مولانا انیس الرحمن قاسی نے مزید کہا کہ اگر ہم نے اس انداز میں سوچنے اور فکر کرنے کی کوشش نہیں کی تو یاد رکھئے یہ سلسلہ مزید دراز ہوگا اور ہمیں انحطاط سے کوئی نہیں بچا سکے گاہمیں اپنی ترقی اور کامیابی کا راستہ طے کرتے ہوئے خود منزل تک پہنچنا ہوگا۔ اس دوران جامعہ ہذاکے اساتذہ مولانامحمدعارف قاسمی ،مولانا حمیدالرحمن قاسمی، حافظ ہدایت اللہ ، قاری محمدعابد، حافظ سعودالحسن فیضی،مولانااکرام اللہ قاسمی جمعیۃ علماء،مولاناخورشید ندوی مریم مسجد،مولاناامتیاز قاسمی امام وخطیب نورجامع مسجد،مولانامحمدنسیم امام وخطیب قریشی جامع مسجد،مولانامحمدایوب ندوی امام وخطیب عثمانیہ مسجد ااکاشوانی، مفتی انظارقاسمی مدینۃ العلوم،مولاناعبدالمالک قاسمی نورالعلوم ،مولانامحمدرضوان قاسمی مدرسہ ندائے اسلام ،قاری محمدیونس صدرجمعیۃ علماءمالونی ودیگرعہدیداران شریک تھے ۔