مودی کا بنگلہ دیش کے سفر کا مطلب؟

تحریر: محمد رفیع
9931011524
rafimfp@gmail.com

ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کا طرز سیاست انوکھا ہے۔ چھوٹے موٹے مفاد کے لئے بھی وہ بڑے کاموں کو انجام دینے سے نہیں چوکتے۔ بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن کی پیدائش صدی کے موقع و بنگلہ دیش کے قیام کے 50 سال پورا ہونے پر وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش کے سفر کو ہندوستان کی بائیں باجو کی جماعت اور سیاسی تجزیہ کار بنگال الیکشن سے جوڑ رہے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ بنگال میں مقیم بنگلہ دیشی پناہ گزین مٹوا برادری کی حمایت اگر بی جے پی کو ملتی ہے تو اسے کافی فائدہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی مودی جی کا یہ سفر اقلیتوں پر بھی سائکلوجیکل اثرات ڈالینگے ساتھ ہی بی جے پی بنگالی جزبات کو بھی ابھارنا چاہتی ہے۔
کووڈ 19 کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کا یہ پہلا غیر ملکی سفر ہے۔ وہ ایک مسلم ملک کا دورہ پرایسے وقت میں گئے ہیں جب بنگال میں انتخاب ہو رہے ہیں اور ملک میں اقلیتوں کے خلاف شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ مندر تحریک کی اپج بی جے پی کے رہنما جب بیرون ملک کے سفر پر ہوتے ہیں تو ان میں یہ امتیاز باقی نہیں رہتا ہے کہ وہ دنیا کے ایک طاقتور ملک ہندوستان کے وزیراعظم ہیں، جہاں جاتے ہیں پہلے مندر تلاش کرتے ہیں اور مندر نہیں ہونے پر مندر بنانے کے لئے جگہ تلاش کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ جھولی بھی پھیلا دیتے ہیں۔ سیکولر ملک اور سیکولر دنیا میں عبادت گاہ کے لئے جگہ کی فراہمی بڑی بات نہیں ہے مگر اس کے پس پردہ جو فرقہ پرستی کا کھیل ہوتا ہے اصل موضوع وہ ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی وہ ضلع ساتخیرا کے شیام نگر واقع یشوریشوری کالی شکتی پیٹھ جاکر انہوں نے ماتا کالی کا درشن اور پوجا کیا۔ وزیراعظم مودی کا زبردست استقبال ہوا، عقیدت مندوں نے ہاتھ جوڑ کر اور سنکھ دھن سے ان کا استقبال کیا اور روایتی 51 شکتی پیٹھوں میں سے ایک یشوریشوری کالی شکتی پیٹھ میں مودی جی نے ماتا کو چاندی کا بنا سونے کا پانی چڑھا ایک تاج (مکٹ) پیش کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مندر میں ایک کمیونٹی ہال کی تعمیر کے لئے فنڈس دینے کا اعلان کیا اور بنگلہ دیش حکومت کا اس کام میں تعاون دینے کے لئے شکریہ ادا کیا۔ اس سے پہلے 2018 کے فروری میں اومان کی ایک مسجد کی بھی زیارت انہوں نے کی تھی اور ابو دھابی میں ایک مندر کے سنگ بنیاد تقریب میں شرکت بھی کی تھی۔ سب کے سیاسی معنیٰ ہیں اور شرپسند عناصر اس سے اثرات لے کر فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔
ہندو کٹر پنتھ وزیراعظم کے اس قدم کو ہندوتوا کی ترقی میں اٹھائے گئے اقدامات تصور کرتے ہیں۔ ہندوستان کے سنگھی لوگ وویکا نند کا عکس مودی میں دیکھتے ہیں اور یہ مانتے بھی ہیں کہ جس طرح وویکا نند نے عالمی سطح پر ہندوتوا کا جھنڈا گار دیا تھا ویسے ہی مودی نے بھی عالمی سطح پر پرچم لہرانے کا کام کیا ہے۔ مگر مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی ٹھیک ہی کہتی ہیں کہ داڑھی بڑھانے سے کوئی روندر ناتھ ٹیگور نہیں ہوتا ویسے ہی عالمی سطح پر پرچم لہرانے سے کوئی وویکا نند نہیں ہو جاتا، وویکا نند حقیقت میں ایک بڑے پایہ کے دانشور تھے اور ہندوتوا کو یا فرقہ واریت کو انہوں نے کبھی بڑھاوا نہیں دیا بلکہ ہندو مذہب میں جو خامیاں تھیں اسکی اصلاح اور انسانیت کی خدمت میں اپنی عمر لگا دی۔ مودی کی رہنمائی میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ہندوتوا اور قومیت کو بڑھاوا دیا تو ضرور لیکن اس کے طریقہ کار میں اتنی خامیاں رہیں کہ یہ ملک کے لئے وبال بن گیا اور سب کچھ درہم برہم ہو گیا، حکومت کے خلاف جس نے آواز اٹھائی اسے ملک مخالف عناصر بتاکر جلیل کیا گیا، مقدمات میں ملوث کر جیل میں ڈال دیا گیا یا پھر ان کے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچایا گیا۔ حکومت کے خلاف بولنے کو بی جے پی ملک کے خلاف بولنا تصور کرتی ہے مگر سپریم کورٹ نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ حکومت کے خلاف بولنا ملک مخالف عمل نہیں ہے۔ لیکن سی اے اے احتجاج کو بی جے پی حکومت نے ملک مخالف عناصر کا ایک گروہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس میں شامل افراد کو دلی فساد جیسے سنگین معاملہ میں ملوث کرنے کا کام کیا۔ ذراعتی بل کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ہوا۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ان پر ایک سازش کے تحت حملے بھی کروائے جا رہے ہیں اور حملہ وروں کی پشت پناہی کر نے والے اسی کو ملک سے محبت کی علامت بتاتے ہیں۔
ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی ہندوستان کے مسلمانوں کے مخالفت میں چلنے والے تمام مہم کی پشت پناہی کرتے ہیں تو دوسری طرف مسلم ممالک کا سفر کر عالمی سطح پر خود کو سیکولر لیڈر ثابت کرتے ہیں، بنگلہ دیش کے سفر کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ پوری دنیا کو یہ خبر لگ جائے کہ مودی کو اپنے پڑوسی ملک مسلمانوں سے کتنی محبت ہے۔ یہ تو وہی پالیسی ہے کہ لکڑی کاٹنا ہے تو لوہے کے اوزار میں لکڑی کا ٹکڑا لگا دو لکڑی کاٹنے میں آسانی ہوگی۔ اسلئے بی جے پی بھی وہی کر رہی ہے اور اسے مسلمانوں کی اچھی خاصی حمایت بھی حاصل ہے۔ مگر افسوس کے آزاد مسلم ممالک بھی جس طرح سے مودی کو ترجیح دیتے ہیں یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ ہندوستان کے پڑوس میں نیپال اور سری لنکا کو چھوڑ کر مسلم ممالک کی بڑی تعداد ہے اگر منظم طریقے سے وہ وزیراعظم نریندر مودی کے نظریہ اور ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ظلم و زیادتیوں کا نوٹس لیتے تو شاید کچھ فائدہ ہوتا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

ہمیں تو اپنوں نے لٹا غیروں میں کہاں دم تھا
ہماری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے