عشق مجازی پر ایک اہم تبصرہ

ازقلم: محمد دلشاد قاسمی

کچھ لوگ محبت کی خماری اور جوانی کے جوش میں آ کر بھاگ کر شادی کر لیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کبھی اپنی اولاد سے ناراض نہیں رہ سکتے وہ دو چار مہینے میں چھ 6 مہینے میں یا سال دو سال کے اندر مان ہی جائیں گے اس لیے وہ یہ قدم اٹھا لیتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی شادیاں اکثر نا کام رہتی ہے اور آپس میں جدائی ہو جاتی ہے اور جس کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا وہ چھوٹ جاتی ہے رہی ماں باپ کی بات تو بھلے ہی وہ آپ سے شکوہ شکایت نہ کریں اور آپ کو اپنے ساتھ رکھ لیں کیونکہ آپ ان کا خون ہو آپ ان کی اولاد ہو وہ آپ سے دور نہیں رہ سکتے لیکن آپ نے جو ان کی بےعزتی کرائی ہے اور ان کا دل دکھایا ہے ان کو رسوا کیا ہے اس کو وہ کبھی نہیں بھول پاتے اس لیے یہ انتہائی خودغرضی کی بات ہے کہ ماں باپ تو مان ہی جاتے ہیں مان تو جاتے ہیں ٹھیک ہے لیکن پہلے جیسے نہیں بن پاتے .
اب کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی آپ نے یہ سب کیوں کیا تھا تو جواب دیتے ہیں بس جی پیار کے ہاتھوں مجبور ہو گئے تھے
یا پھر ہماری تقدیر یا قسمت میں ہی یہی لکھا تھا یاد رکھئے تقدیر تو وہ ہوتی کہ بندہ انجام سے بے خبر ہو لیکن آپ نے تو انجام کے بارے میں سوچ سمجھ کر یہ سب کیا ہے تو پھر تقدیر سے کیسا شکوہ.
عمل سے غافل ہوا مسلمان بنا کے تقدیر کا بہانہ
اصل میں ایسے لوگ محبت کو بدنام کرتے ہیں… محبت تو وہ پاکیزہ احساس ہے جو بندے کو اللہ پاک سے ملاتا ہے. جب آپ کو کسی انسان سے سچی محبت ہو جائے تو آپ ضرور اللہ کی راہ پر آجائیں گے خواہ وہ تمہیں ملے یا نہ ملے بہت سے صوفیاء حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ عشق مجازی عشق حقیقی تک لے کر جاتا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی شکستہ اور ٹوٹے ہوئے دل کی زیادہ سنتا ہے اسی کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے .

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

جب بندے کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ہر طرف سے مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تبارک و تعالی کے سامنے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ مانگتا ہے یا اللہ بہت مایوس ہوں بہت اداس ہوں بالکل ٹوٹ چکا ہوں زندگی سے تھک ہار کر آپ کے پاس آیا ہوں مجھے جوڑ دیجیے تو پھر اس کے نتیجے میں اس کو وہ سجدے نصیب ہو جاتے ہیں جن سے عشق حقیقی نصیب ہو جاتا ہے .
محبت ہونا ایک فطری عمل ہے ہوجاتی ہے لیکن محبت میں فیصلے لینا غلط ہے.. ہم تو فانی انسان ہیں ہمیں کیا معلوم کل کیا ہونے والا ہے.
ہم اگر اس ذات پاک پہ سب چھوڑ دیں جو کل کے بارے سب کچھ جانتا ہے تو وہ ہمارے لئے بالکل اسی انسان کا انتخاب کرے گا جو ہمارے لئے سب سے پرفیکٹ ہے بس محبت میں ایک ہی دعا کیا کریں کہ اے اللہ مجھے وہی عطا فرمانا جو میرے لئے بہتر ہے تو بہتر جانتا ہے کہ میرے لئے کیا بہتر ہے.
جب آپ اللہ پاک پہ چھوڑ دیں گے تو پھر زندگی میں کچھ غلط نہیں ہوگا..
جن کا ملنا قدرت کو مقصود ہو وہ ضرور مل جاتے ہیں
بس اک بار رو کر اللہ پاک کو اپنی ساری داستان محبت سنا دو اگر وہ آپ کے لیے بہتر ہوگا تو اللہ تعالی ضرور آپ کو آپ کی محبت سے ملا دیں گے
محبت ایسے کریں کہ ہمارے ماں باپ کا سر نہ جھکے… مغربی نہ بنو 20 سال تک تو ماں باپ کا فائدہ اٹھایا ان کو استعمال کیا اور پھر آزادی کے نام پر ان سے الگ ہو جاؤ کہ آپ کو ہماری لائف میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے یہ کہاں کا انصاف ہے ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اگر خدانخواستہ حالات ایسے بن جائے کہ آپ کو ماں باپ یا محبوبہ میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو یقیناً ماں باپ کو ترجیح دینا کیونکہ اگر ماں باپ کا دل دکھاؤ گے تو خوش نہیں رہ سکتے اور آخرت میں بھی اس کا سوال ہوگا
محبت میں جو لوگ غلط قدم اٹھاتے ہیں ان کو یہ سب کرنے سے پہلے اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ ماں باپ کا past ماضی تو انہوں نے دیکھا ہے لیکن اس لڑکی کا future مستقبل وہ نہیں جانتے کیسا ہوگا تو ایک مبہم چیز کی وجہ سے ایک یقینی چیز کو چھوڑنا بے وقوفی ہے
خود کو اتنا مضبوط بناو کہ سچائی کا سامنا کر پاو. چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ہمت نہ ہارا کرو غم میں کبھی تنہا نہ بیٹھا کرو تب شیطان ایسے بہت سے راستوں پر اکساتا ہے. اس تنہائی سے اپنے آپ کو بچاؤ اور اچھے کام میں اپنا وقت صرف کرو بہت جلدی ریلیکس ہو جاؤ گے اور پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ تنگی کے بعد آسانی ہے
ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ

یہ برے دن بھی گزر جائیں گے

فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا

﴿ سَيَجعَلُ اللَّهُ بَعدَ عُسرٍ يُسرًا ﴾

حافظ ابن رجب- رحمه الله تعالى فرماتے ہیں کہ –
کشادگی کو تنگی کے ساتھ ،اور آسانی اور یُسر کو پریشانی کے ساتھ ملاکر بیان کرنے کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ جب مشکلات اور پریشانیاں بڑھ کر شدت اور انتہاء کو پہنچ جائیں ، اور بندے کو مخلوق کی طرف سے انکو دور کرنے کی امید ختم ہو جاتی ہے ، تو اسکے دل کا تعلق صرف اور صرف اللہ جل وعلا سے جڑ جاتا ہے۔ اور یہی اللہ پر توکل اور بھروسہ کی حقیقت ہے ، اور یہ توکل علی اللہ ہی ان بڑے اسباب میں سے ہے کہ جن کے ذریعہ ضرورتیں طلب کی جاتی ہیں، اسلئے کہ اللہ اسکے لئے کافی ہے جو اللہ پر بھروسہ رکھے، جیسا کہ اللہ جل وعلا کا ارشاد ہے :
﴿ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ ﴾ .

فضيل بن عياض ؒ فرماتے ہیں :
کہ قسم بخدا اگر تم مخلوق سے ایسے ناامید ہو جاؤ ، کہ ان سے کسی بھی چیز کا مطالبہ نہ کرو ، تو تمہارا مولی ومالک تم کو ہر وہ چیز عطا کردیگا جو تم چاہوگے۔ 〖 جامع العلوم والحكم〗

علامہ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ( ہر مشکل کے بعد آسانی ) اللہ کا وعدہ ہے ،اور اللہ کا وعدہ بالکل برحق اور سچا ہے ، اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔{ تفسیرابن کثیر}
جو سادگی ہمیں نیجر میں دکھتی ہے وہ انسان اگر اپنے وچاروں میں لے آئے تو یقیناً اس کی زندگی بہت خوبصورت اور سکون سے بھر جائے انسان اپنے دکھ کا بہانہ بنا کر زندگی کے خوبصورت لمحوں کو یونہی ضائع کر دیتا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو "ولا تقنطوا من رحمۃ اللہ” ایک بار اپنے آپ کو موقع تو دو انشاءاللہ خوشی کا وقت بھی آئے گا کیونکہ وقت ہر کسی کا بدلتا ہے .

جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا

وفا کی آرزو کرنا
سفر کی جستجو کرنا ……!!

یہ اکثر ہو بھی جاتا ہے
کہ رستہ کھو بھی جاتا ہے
مقدر سو بھی جاتا ہے……!!

مگر تم حوصلہ رکهو
وفا کا سلسلہ رکهو
جسے خالق سمجھتے ہو
تو اس سے رابطہ رکهو
میں یہ دعوے سے کہتا ہوں
کبھی ناکام نہ ہو گے ………!!

جو تم مایوس ہو جاؤ،
تو رب سے گفتگو کرنا ……!
کبھی مایوس مت ھونا…..

وہاں انصاف کی چکی……
ذرا دھیرے ہی چلتی ھے…..
مگر چکی کے پاٹوں میں…..
بہت باریک پستا ھے…..
تمہارے ایک کا بدلہ…..
وہاں ستر سے زیادہ ھے…..

نیت تلتی ھے پلڑوں میں…
عمل ناپے نہیں جاتے…
وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہیں۔۔
کبھی خالی نہیں جاتے۔۔

ذراسی دیرلگتی ہے۔۔۔
مگر وہ دے کے رہتا ہے

جو تم مایوس ہو جاؤ
تو رب سے گفتگو کرنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے