تحریر: شاہنواز فاروقی
اسلام کی پوری تاریخ حق و باطل کی کشمکش کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا کوئی دور اور کوئی زمانہ ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ دور اور یہ زمانہ باطل یا طاغوت سے پاک تھا۔ یہ کشمکش مسلمانوں کی تقدیر ہے اور جب تک یہ دنیا باقی ہے یہ کشمکش کسی نہ کسی عنوان سے برپا رہے گی۔ چناں چہ مسلمانوں کو ہر زمانے میں شہادت حق کا فریضہ انجام دیتے ہوئے باطل کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنی ہوگی اور ہر دن باطل کو للکارنا ہوگا۔ یہ حقائق پوری طرح عیاں ہیں مگر بعض اہل فکر و نظر اس سلسلے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر انیس احمد تحریک اسلامی کے اہم دانش ور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وسیع المطالعہ بھی ہیں اور وسیع النظر بھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دو ایسی باتیں کہی ہیں جن سے اتفاق ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ باتیں اس انٹرویو کا حصہ ہیں۔ جو روزنامہ جسارت کے سید منور حسن سے متعلق خصوصی شمارے میں شائع ہوا ہے۔ سوال کرنے والے نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ منور صاحب کا امریکا کے حوالے سے ایک بالکل مختلف اور واضح موقف تھا جس پر آپ نے بھی تبصرہ کیا تو آپ اس موقف کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں محترم ڈاکٹر انیس نے فرمایا۔
’’مجھے ان سے اِس معاملے پر کبھی اتفاق نہیں رہا، میں ہمیشہ یہ بات کہتا رہا کہ ہمارا محض کسی کو چیلنج کرنا اور اس کو مردہ باد کہنا کافی نہیں ہوسکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُن امور پر توجہ دیں جو ہم کرسکتے ہیں۔ ٹھوس علمی اور تربیتی کام کریں۔ ہمیں بلاوجہ کسی کو للکارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلاشبہ طاغوت کی مخالفت دین کا تقاضا ہے۔ قرآنِ کریم بھی اس بات کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ہر لمحہ طاغوت کو للکار کر ایک جذباتی ماحول تو پیدا ہوسکتا ہے لیکن اس کا دعوتی زاویے سے جو امپیکٹ ہونا چاہیے اس میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور اس پر میں نے بارہا اپنی رائے کا اظہار کیا اور انہوں نے ہمیشہ تحمل کے ساتھ سنا مگر اتفاق کا اظہار نہیں کیا‘‘۔
(سید منور حسن نمبر۔ جسارت خصوصی شمارہ اشاعت دوم۔ صفحہ 21)
سید منور حسن ایک نظریاتی شخص تھے۔ ان کے ’’نظریاتی شعور‘‘ کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی میں ایسا نظریاتی شعور کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس نظریاتی شعور کا حاصل یہ تھا کہ سید صاحب حق و باطل کی کشمکش سے پوری طرح آگاہ تھے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد وہ امریکا کو وقت کا سب سے بڑا طاغوت سمجھتے تھے۔ سید صاحب کا مسئلہ صرف امریکا بھی نہیں تھا وہ پوری مغربی تہذیب سے بیزار تھے لیکن امریکا کو وہ اس تہذیب کی سب سے بڑی علامت سمجھتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے اپنے عہدِ امارت میں ’’گو امریکا گو‘‘ کے عنوان سے ایک تحریک بھی چلائی۔ بدقسمتی سے جماعت اسلامی میں اس تحریک کی اہمیت کوئی سمجھا ہی نہیں۔ چناں چہ ہم نے گو امریکا گو تحریک کے حوالے سے صرف منور صاحب ہی کو بیان دیتے اور تقریریں کرتے دیکھا۔ کسی نے اس سلسلے میں کوئی ایک آدھ بیان دے دیا ہو تو دے دیا ہو ورنہ اس حوالے سے ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔ خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ وقت کے باطل اور وقت کے طاغوت کو للکارنا بہت ضروری ہے۔ یہی انبیا و مرسلین اور مجددین کی سنت ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، ان کے پاس نہ فوج تھی نہ کوئی قوم تھی۔ یہاں تک کہ ان کے پاس ایک جماعت بھی نہ تھی۔ سیدنا ابراہیمؑ صرف ایک فرد تھے مگر اس کے باوجود انہیں حکم ہوا کہ نمرود کو للکاریں، اسے چیلنج کریں اور سیدنا ابراہیمؑ نے پوری شدت کے ساتھ نمرود کو چیلنج کیا۔ اس چیلنج کا نتیجہ فوراً سامنے آیا۔ نمرود نے سیدنا ابراہیمؑ کے لیے ایسی آگ تیار کرائی جس کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے مگر سیدنا ابراہیمؑ کے پایہ استقامت میں لرزش نہ آئی۔ یہاں تک کہ اللہ کی مدد آگئی، اللہ تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنادیا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ سیدنا ابراہیمؑ کے حوالے سے ہوا وہ صرف اسی دور کے لیے تھا مگر اقبال کو اس بات سے اتفاق نہیں۔ چناں چہ اقبال نے کہا ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ ایمان کا ہے۔ آج بھی کسی کے پاس سیدنا ابراہیمؑ جیسا ایمان ہو تو آج بھی آگ گلزار بن سکتی ہے۔ لیکن باطل اور طاغوت کی مزاحمت کا معاملہ صرف سیدنا ابراہیمؑ تک محدود نہیں۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی نہ ریاست تھی، نہ حکومت تھی، آپ کے پاس بھی نہ فوج تھی نہ کوئی جماعت تھی۔ آپ تھے اور آپ کے بھائی سیدنا ہارونؑ۔ مگر صرف دو افراد کو حکم ہوا کہ بادشاہ وقت فرعون کے پاس جائو اور اس کو چیلنج کرو اور دونوں انبیا نے فرعون کو چیلنج کیا۔ اس چیلنج کا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ فرعون نے سیدنا موسیٰؑ اور ان کے پیروکاروں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا اور اگر اللہ ایک معجزے کے ذریعے سیدنا موسیٰؑ اور ان کے پیروکاروں کو نہ بچاتا تو فرعون نے انہیں ہلاک کرنے میں کوئی کثر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ رسول اکرمؐ کی شخصی تاریخ بھی یہی ہے کہ آپ نے کسی حکومت، کسی ریاست، کسی فوج اور کسی قوم کے بغیر وقت کے باطل اور وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا۔ غزوئہ بدر میں جب کہ آپ کے ساتھ 313 افراد تھے اس وقت بھی طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا، مگر اس کے باوجود مسلمان باطل کے سامنے صف آرا ہوئے۔ یہ اتنا اہم مرحلہ تھا کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اے خدا اگر آج یہ جماعت ناکام ہوگئی تو روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ انبیا کی سنت کے یہ حقا
ئق بھی
بتارہے ہیں کہ مسلمان برپا ہی شہادت حق کے لیے ہوئے ہیں۔ وہ پیدا ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ باطل اور طاغوت کو چیلنج کریں۔ انبیا کی سنت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی نبی نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ باطل کو للکارنے کا دعوتی Impact کیا ہوگا۔ غور کیا جائے تو دعوت کا اثر عام آدمی کیا انبیا کے ہاتھ میں بھی نہیں تھا۔ رسول اکرمؐ مکّی زندگی میں اس بات سے بہت پریشان رہے کہ 13 سال کی سخت محنت کے باوجود بہت کم لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمؐ سے فرمایا کہ آپؐ کیوں پریشان ہوتے ہیں، ہدایت دینا آپ کا کام تھوڑی ہے۔ آپ کا کام تو پیغام کو بہ تمام و کمال لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔ ہدایت دینا تو ہمارا کام ہے۔ اس امر سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔ لیکن باطل اور طاغوت کو للکارنا مسلمانوں کا کام ہے۔ چناں چہ ہمیں باطل کو للکارتے ہوئے اس بات کی رتی برابر بھی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اس سے ہماری دعوت اور اس کا اثر متاثر ہوسکتا ہے۔
حق و باطل کی کشمکش برپا کرنا چوں کہ انبیا کی سنت ہے اس لیے مسلم تاریخ کے مجددین پر اس سنت کا گہرا اثر ہوا ہے۔ امام غزالیؒ کے زمانے میں باطل کی ’’علمیت‘‘ ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھری۔ غزالی کے پاس بھی نہ کوئی سلطنت تھی، نہ کوئی حکومت تھی۔ یہاں تک کہ ان کے پاس شاگردوں کی فوج بھی نہیں تھی۔ غزالی صرف ایک فرد تھے۔ چناں چہ انہوں نے تن تنہا باطل کی علمیت کے چیلنج کو قبول کیا اور اس کا ایسا جواب لکھا کہ گویا یونانی فلسفے کا بیج ہی مار دیا۔ غزالی متکلم تھے، فلسفی نہیں تھے مگر انہوں نے باطل نظریات کا رد لکھنے کے لیے فلسفہ پڑھا، اور ایسا پڑھا کہ ان کے سب سے بڑے مخالف ابن رشد نے لکھا ہے کہ غزالی کو فلسفہ فلسفیوں سے زیادہ آتا ہے۔
مجدد الف ثانی کے زمانے میں باطل اور طاغوت عقاید کے لیے چیلنج بن کر اُبھرا۔ مجدد الف ثانی بھی صرف ایک فرد تھے۔ مگر انہوں نے بادشاہ وقت جہانگیر کو چیلنج کردیا اور جہانگیر کو بالآخر مجدد الف ثانی کی بات ماننی پڑی۔ مولانا مودودی بھی مجدد وقت تھے اور انہوں نے وقت کے دو باطل نظاموں یعنی سوشلزم اور سرمایہ داری کو فکری اور عملی دونوں محاذوں پر چیلنج کیا۔ مولانا مودودی کے پاس بھی نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی۔ مولانا نے جب اپنے کام کا آغاز کیا تو ان کے پاس جماعت اسلامی بھی نہ تھی۔ مگر مولانا نے اپنی پوری زندگی وقت کے باطل نظاموں سے پنجہ آزمائی پر صرف کردی۔ انہوں نے مغربی تہذیب کو خاص طور پر للکارا۔ انہوں نے جدید مغربی تہذیب کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کرتے ہوئے اسے جاہلیت خالصہ کا نام دیا۔ اسے ’شجر خبیث‘‘ قرار دیا۔ اسے ’’تخم خبیث‘‘ کہہ کر پکارا۔ ہر سچے مسلمان کے دل میں باطل اور طاغوت کے لیے ایسی ہی نفرت اور ایسی ہی ناپسندیدگی ہونی چاہیے۔ باطل سے نفرت کا معاملہ یہ ہے کہ شیطان کا نام عزازیل تھا مگر اس کی گمراہی اور ضلالت کی وجہ سے حق تعالیٰ نے خود اس کا نام بگاڑ دیا اور اسے شیطان اور ابلیس کہہ کر مخاطب کیا۔ ابوجہل کا نام بھی ابوجہل نہیں تھا۔ اس کا نام عمر بن ہشام تھا مگر اس کی حد سے بڑھی ہوئی ضلالت، گمراہی اور تکبر نے اس کا نام بھی بگاڑ دیا اور اب وہ قیامت تک ابوجہل کہلائے گا۔ مولانا مودودیؒ نے اس تناظر میں جدید مغربی تہذیب کا نام بگاڑا ہے اور اسے جاہلیت خالصہ، شجر خبیث اور تخم خبیث کہہ کر پکارا ہے۔
حق و باطل کی کشمکش کا ایک پہلو یہ ہے کہ صرف حق ہی باطل کو مٹانے کے لیے کوشاں نہیں ہوتا باطل بھی حق کو نیست و نابود کرنے کے لیے متحرک رہتا ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ مغرب تھا جس نے 1099 میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں ایجاد کیں۔ یہ جنگیں دوچار سال نہیں دو سو سال تک چلیں۔ 18 ویں صدی آئی تو مغرب ایک بار پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحرک ہوا اور اس نے پوری مسلم دنیا کو اپنی کالونی بنالیا۔ نوآبادیاتی دور ختم ہوا تو جدید مغرب نے مسلمانوں پر اپنی پسند کے جرنیل، سیاسی حکمران اور بادشاہ مسلط کردیے۔ مغرب کو کمیونزم سے نجات ملی تو وہ ایک بار پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوگیا۔ اس نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا۔ عراق کو مقبوضہ ملک بنادیا۔ اس نے صومالیہ کو نشانہ بنایا۔ پاکستان میں خانہ جنگی کرادی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سید منور حسن کی گو امریکا گو تحریک وقت کی ضرورت تھی بلکہ ہمیں اس سے آگے بڑھ کر گو مغربی تہذیب گو کی تحریک برپا کرنی چاہیے۔ عہدِ حاضر میں جدید مغربی تہذیب اسلام اور اسلامی تہذیب کے خلاف سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہم نے اس تہذیب کو نہ للکارا تو ہم اپنے مذہبی اور تہذیبی تشخص کو بچا نہیں پائیں۔