ازقلم: محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ
علوم وفنون کی تدریس کے موقع سے سب سے اہم کام اس فن سے متعلق مبادیات سے طلبہ کو واقفیت بہم پہونچانی ہوتی ہے، مبادیات کا استحضار جس قدر طلبہ کے ذہن ودماغ میں محفوظ ہوگا، اسی قدر اس فن اور درسی کتابوں کا سمجھنا آسان تر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں کئی کئی روز مبادیات کو سمجھانے میں صرف ہوتا ہے، عموماً یہ مبادیات کسی ایک جگہ محفوظ اور جمع نہیں ہوتے کہ وہاں سے اٹھا کر مطالعہ کر لیجئے، بلکہ اس کو مطالعہ کے دوران یاد داشت کے طور پر محفوط کیا جا تا ہے، اور پھر حسب ضرورت اساتذہ طلبہ تک اسے منتقل کرنے کا کام کرتے ہیں، پھر جو فن جس قدر اہم ہے اسی اعتبار سے اس کے مبادیات بھی اہم ہوتے ہیں، جن کے بغیر فن کے رموز ونکات تک رسائی دشوار ہوتی ہے۔
امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی مدظلہ کو اللہ رب العزت نے زبان ہوش مند، فکر ارجمند دلِ درد مند اور علمی بصیرت سے پُر قلم کی دولت سے نوازا ہے، وہ اچھا بولتے ہیں، اچھا لکھتے ہیں اور ضرورت کے مطابق اسے منظر عام پر لاتے ہیں، علم تفسیر تاریخ وتعارف حضرت کی تالیف لطیف ہے، جس میں انہوں نے ”مبادیات تفسیر، ماخذ تفسیر، تفسیر بالرائے، معتبر مفسرین،مستند تفاسیر، علوم تفسیر واقسام تفسیر جیسے بہت سے اہم موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے“ کتاب کا آغاز پیش لفظ سے ہوتا ہے، جو حضرت امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ کے قلم گہر بار سے ہے، حضرت صاحب نے اسے ”کامیاب اور گراں مایہ علمی خدمت قرار دیا ہے، جس کے مطالعہ سے تھوڑے سے وقت میں خاصی معلومات حاصل ہوجاتی ہے،“ مقدمہ حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب دامت برکاتہم کا ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ ”مولانا موصوف نے زیر مطالعہ کتاب میں تفسیر کے ضروری مبادیات کا احاطہ کیا ہے، طرز بیان سہل انگیز اور عمومی ہے“۔
پیش لفظ اور مقدمہ کے بعد مؤلف کی جانب سے فاتحۃ الکتاب ہے، یہ ایک البیلا عنوان ہے جو قرآن کریم کی مناسبت سے رکھا گیا ہے، اس میں ندرت بھی ہے اور انوکھا پن بھی، عام طور سے اس قسم کا عنوان نہیں رکھا جاتا ہے، لیکن داد دیجئے مؤلف کے ذہن رسا کی کہ انہون نے ابتدائیہ وغیرہ کی جگہ پر فاتحۃ الکتاب کا عنوان لگایا، جسے قرآن کریم کے آغاز سے خاص مناسبت ہے۔ مؤلف نے فاتحۃ الکتاب میں اس کتاب کے مقاصد اور تالیف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ
”اس کتاب کی تالیف میں کوشش کی گئی ہے کہ علم تفسیر کے بنیادی اور مرکزی مباحث نہایت مختصر مگر جامع انداز میں آجائیں اور زبان اتنی آسان رکھی گئی ہے کہ مدارس وجامعات کے علاوہ عام آدمی بھی اس کا مطالعہ کرکے علوم قرآن کی معلومات حاصل کر سکے، مگر پوری کتاب میں حوالہ کا مکمل خیال رکھا گیا ہے کہ جو بھی بات ہو اس فن کی مستند کتابوں کے حوالہ کے ساتھ ہو“۔
ان تحریروں کے بعد اصل کتاب صفحہ 24/سے شروع ہوتی ہے، مؤلف نے تفسیر کی مختلف مفسرین کے حوالہ سے پانچ تعریفیں کی ہیں، اور پھر محاکماتی اور تجزیاتی انداز میں سب تعریفوں کا خلاصہ بیان کیا ہے، علم تفسیر کے موضوع، غرض وغایت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ تفسیر اور تاویل کے درمیان فرق بیان کیا ہے، تاویل پر تحقیقی گفتگو کی ہے، مؤلف نے تفسیر کی مختلف اقسام کے حوالہ سے تفسیر ماثور، تفسیر بالرائے، تفسیر اشاری، تفسیر فقہی، تفسیر لغوی ہر ایک کے طریقہ پر مختصر مگر جامع کلام کیا ہے، تفسیر کے دیگر اقسام مثلا تفسیر اصلاحی، تفسیر علمی اور تفسیر قرآن کے ماخذ اور تفسیر بالرائے کی شناعت وقباحت کو بیان کرنے کے ساتھ اجتہاد ورائے سے بعض موقعوں پر جواز کے دلائل بھی بیان کیے ہیں، تفسیر میں بہت ساری اسرائیلی روایات آگئی ہیں، یہ کس طرح تفسیر کا حصہ بنیں اور کس طرح یہودیوں نے اس کام کے لیے سازشیں کیں، اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اسرائیلیات کے اقسام، صوفیاء کی تفاسیر، طبقات مفسرین، مشہور مفسرین صحابہ، تابعین، ہندوستانی اور غیر ہندوستانی مفسرین کا تعارف نیز اہم کتب تفسیر کا اجمالی اور چند مشہور تفاسیر کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے اور بات جلالین پر جا کر ختم ہو گئی ہے، کیونکہ مدارس اسلامیہ کے مروجہ نصاب میں یہ تفسیرکی پہلی کتاب ہے، اس ضمن میں جلالین کے ماخذ، خصوصیات، شرح وحواشی سے قارئین کو واقفیت بہم پہونچائی گئی ہے، کتاب کے آخری صفحہ پر مؤلف کا اجمالی تعارف درج ہے۔
ایک سو تینتالیس (143)صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے موضوع پر انتہائی جامع اور ”دریا بکوزہ“ کا صحیح مصداق ہے، کتاب کی طباعت مؤلف کے اپنے مکتبہ دا رالتالیف دیو بند سے ہوئی ہے، کاغذ اور اشاعت میں حسن وجمال کی رعنائیوں کا خیال رکھا گیا ہے، ٹائٹل جاذب نظر ہے، رسم الخط میں ہم جسے کمزور نگاہ والوں کی بھی رعایت رکھی گئی ہے، جلی ہونے کی وجہ سے پڑھنا آسان ہو گیا ہے۔ کتاب کی قیمت ایک سو بیس روپے یعنی کم وبیش فی صفحہ ایک روپے کے حساب سے ہے، طلبہ کے لیے یہ قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ دیو بند کتابوں کی بڑی مارکیٹ ہے او روہاں کے تاجر کتابوں کی خریداری پر پچاس سے ساٹھ فی صد کمیشن بھی دیتے ہیں، یہ کمیشن وضع کر لیجئے تو قیمت کم معلوم ہوگی، ملنے کے پتہ میں ایک درجن سے کچھ ہی کم پتے درج ہیں، آپ زیادہ چکر میں مت پڑیئے دار التالیف دیو بند سے منگوا لیجئے،یا دیو بند کے کسی بھی کتب خانہ سے، کتاب مفید ہے، طلبہ کے لیے اس کا رکھنا انتہائی ضروری ہے، قرآن کریم کی نسبت سے مبادیات عام لوگوں کو بھی جاننا چاہیے، ایک کتاب ہدیہ کرائیے اور سینکڑوں کتابوں کی ورق گردانی سے محفوظ ہو جائیے، ہے نا نفع کا سودا۔