دو بالغ مرد و عورت کے درمیان پسند کی شادی اور اسلام

تحریر: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر صحافی و کالم نگار۔ حیدرآباد
فون نمبر: 9849099228
شریک حیات کے انتخاب کی آزادی کے سلسلہ میں افراط و تفریط سے نوع انسانی کو بچاتے ہوئے اسلام ایک ایسی اعتدال کی راہ دکھاتا ہے، جس میں خیر ہی خیر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جتنے بھی مرد وعورت دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب ایک مرد اور ایک عورت (آدمؑ وحواؑ ) سے پیدا کیے گئے‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان میں جہاں بہت سارے مرد عورت پیدا فرمایا، ان کے درمیان کچھ رشتوں کو تقدس عطا فرماتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے حرام کرتا ہے، جیسے کہ ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی، بھائی اور بہن، پھوپی اور بھتیجا، چچا اور بھتیجی، ماموں،خالہ، بھانجا اور بھانجی، سوتیلا باپ اور بیٹی، سوتیلی ماں اور بیٹا، ساس اور داماد، خسر اور بہو، سالی اور بہنوئی (بہن کی زندگی میں) اور رضائی رشتہ دار (سورۃ نساء رکوع 4 آیت 23 میں اس کا ذکر ہمیں ملتا ہے) اس طرح یہ بات بتلادی گئی کہ یہ رشتے انتہائی طور پر ایک دوسرے کیلئے ہمیشہ کیلئے حرام ہیں۔ یعنی ان کے تعلقات کی حرمت قائم فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان صنفی میلان سے انہیں اس قدر پاک کردیا ہے کہ اب وہ آپس میں اپنے ان رشتوں کے درمیان مرد وعورت یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ ایک دوسرے کی جانب کوئی صنفی کشش رکھتے ہوں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو لوگ جانوروں کی سی زندگی بسر کررہے ہوں اور دنیا کی لذات شہوانی میں اتنے مگن ہوگئے ہوں جنہیں اس بات کا ہوش بھی نہیں رہتا کہ خدا نے جنسی خواہش کی تکمیل کے کیا کچھ قاعدہ مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو پیدا فرمایا ہے انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا کہ جس طرح چاہے چوپایوں کی سی زندگی بسر کریں، بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کا سامان بھی کردیا۔ گویا کہ روحانی غذا کے طور پر اپنے انبیاء و رسل اور کتب کے ذریعہ اس ضرورت کو پورا کیا، اور پیٹ بھرنے اور جسمانی طاقت حاصل کرنے کیلئے زمین سے اناج نکالے، مختلف پھل مہیا فرمادیئے گئے۔ اور نفسانی خواہش اور جنسی تسکین کو پورا کرنے کیلئے عورت و مرد کے جائز تعلقات کا طریقہ بتلا دیا اور یہ بات کھول کر بیان کردی گئی کہ مرد و عورت اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کیلئے نکاح کے ذریعہ حسب خواہش (شرعی طور طریقہ پر) ایک دوسرے کے ساتھ تمتع کریں، فائدہ اٹھائیں۔ اس کے علاوہ جتنے بھی طریقے ہیں وہ سب زنا اور سخت گناہ کے دائرے میں آتے ہیں جسے اللہ کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ فعل قرار دیا جائے گا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں ارشاد فرمادیا گیا کہ
وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَائَ سَبِیْلًا (بنی اسرائیل آیت 32)
زنا کے قریب مت پھٹکو، وہ برا فعل ہے اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے۔
آج دنیا میں ہمیں جو کچھ صنفی انتشار کی جو کیفیت نظر آرہی ہے اس کے سدباب کیلئے اور صنفی آوارگی کے راستے کو بند کرنے کیلئے اسلام نے فطری ضابطہ مقرر کردیا تاکہ نسل انسانی کی عصمتیں محفوظ رہیں۔ علاوہ ازیں عقد نکاح کا جو ضابطہ کارخانہ قدرت میں جاری فرمایا گیا ہے یہ صرف مرد وعورت کیلئے جنسی خواہش کی تسکین تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ نے نکاح کا دروازہ کھول کر عورت و مرد کو ایسے بندھن میں باندھتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی پاسداری کریں۔ یہ بندھن ‘ اور میاں بیوی کا تعلق جتنا مضبوط ہوگا ایک بہترین معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اس طرح نکاح کا ایک ضابطہ ہے، اسے پورا کرنا عورت و مرد کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اگر بے ضابطے طریقے اپنائے جائیں یا چوری چھپے یا کھلے بندوں، بے حیاتی و بے شرمی کے ساتھ عشق و محبت کے نام پر بدکاری کرتے ہوں تو یہ عنداللہ نامقبول طریقہ ہیں۔
اب بین المذاہب شادیوں کا جو رواج زور پکڑ رہا ہے، یہاں تک کہ ہماری عدالتیں بھی اس بات کی تائید کررہی ہیں اور حالیہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ججس نے اپنی مرضی کا ساتھی چننے کے حق کو ہر بالغ کیلئے محفوظ کردیا اور اس معاملہ میں والدین کو بھی اعتراض کے حق سے یکسر محروم کردیا جو ہمارے لئے لمحہ فکر ہے۔ اسلام نے تو 1450 سال پہلے ہی چند شرائط کے ساتھ یہ حق دیا ہے، ارشاد نبوی ہے: الایم احق بنفسھا من ولیھا۔ یعنی لڑکی اپنے معاملہ میں فیصلہ کرنے کا حق اپنے ولی سے زیادہ رکھتی ہے۔ علاوہ اس کے ’’لاتنکح البکر حتی تستأذن‘‘ باکرہ لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔
اور اسی طرح مردوں کیلئے بھی اُن کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم (یاکم ازکم مشورہ) دیا ہے کہ نکاح سے پہلے عورت کو دیکھ لیں۔ فرمایا ’’اذاخطب احد کم المرأۃ فان استطاع ان ینظر الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل‘‘۔
جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کو اس عورت سے نکاح کی رغبت دلانے والی ہو۔
اس طرح مذہب اسلام نے نکاح کے معاملہ میں اس بات کی رعایت دی ہے کہ مرد اپنے عقد نکاح میں آنے والی عورت کو دیکھ لے۔ اگر اسے پسند ہے اور اس میں اپنے لیے رغبت پاتا ہو تو قبول کرلے، تاکہ مؤدت و رحمت کی بنیاد مضبوط ہوسکے۔ اور اسی طرح عورت کیلئے بھی یہ حق محفوظ کردیا گیا کہ وہ اپنی مرضی ظاہر کردے کہ وہ کس مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے، والدین خواہ لڑکی کے ہوں یا لڑکے کے کسی بھی طرح سے زبردستی نہیں کرسکتے۔ حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نوراللہ مرقدہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’پردہ‘‘ میں یوں تحریر فرمایا:
’’عورت کو شوہر کے انتخاب کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ خود اپنی مرضی سے کسی مسلم کے ساتھ نکاح کرے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ البتہ اگر اس کی نظر انتخاب کسی ایسے شخص پر پڑے جو اس کے خاندان کے مرتبے سے گرا ہوا ہو تو اس صورت میں اس کے اولیاء کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔ (اقتباس ختم)
اب تک کی تحریر سے یہ بات صاف ہوگئی کہ عورت و مرد کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند کا اختیار رکھنے میں انہیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ والدین کی مداخلت اسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنی اولاد شادی کے معاملہ میں کوئی ایسا انتخاب کررہے ہوں جو خود ان کے حق میں نامناسب یا نقصاندہ ہو۔ اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے باشعور وفکر مند والدین اپنی اولاد کے بہترین مستقبل کے متمنی رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کی شادی اپنی ہی مذہبی برادری میں ہو۔ جسٹس منوج کمار گپتا اور جسٹس دیپک ورما صاحبان پر مشتمل بنچ نے عورت مرد کی آپسی رضا مندی اور ان کے بالغ ہونے کو معیار بنایا ہے اور حکم دیا گیا کہ اگر دو بالغ مرد عورت آپس میں ساتھ رہتے ہوں تو کسی کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری بات اس عدالتی حکم میں یہ آئی ہے کہ شادی کے معاملہ میں عورت و مرد کیلئے مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس عدالتی احکام سے ہر مذہبی شہری ذہنی کشاکش میں مبتلاہوا ہوگا، خاص طور پر ملک میں پائے جانے والی ایک بڑی اقلیت جن کا تعلق مذہب اسلام سے ہے ان کے اندر سخت اضطراب و بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان عورت و مرد اسلام کے نہ ماننے والے کسی مرد و عورت سے نکاح کرے۔ اسلام میں میاں بیوی کا تعلق صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ روحانی، فکری اور سب سے اہم ایمانی ہے، اگر ان میں ہم آہنگی نہ ہو تو پھر ایک پاک وصاف معاشرے کیلئے بہت بڑا نقصان ہے۔ میاں بیوی کے درمیان مذہبی طور پر یکسانیت نہ ہو تو پھر ان کی زندگی میں ایک دن وہ بھی آتا ہے کہ اپنی اولاد کو بے مذہب ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔
شادی بیاہ کیلئے اسلام کا یہ بہترین نظام ہے کہ وہ والدین کو یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کے بالغ ہوتے ہی ان کے نکاح کروادیئے جائیں اور اس میں عجلت کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں مرد و عورت کی مرضی جاننے کیلئے ایجاب و قبول مقدار مہر اور گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیتا ہے۔ اس طرح والدین کی سرپرستی یا خاندان کے بزرگوں کی نگرانی اور عاقدین کی مرضی و رضا مندی کے ساتھ ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ جس کا اصل جوہر ’’محبت‘‘ و ’’رحمت‘‘ ہے جس کے بغیر خاندان کی اٹھان ناممکن ہے بلکہ اس کے بکھرنے کے پورے امکان ہوتے ہیں۔ اسلام میں مرد و عورت کو اپنی مرضی کی شادی کا اختیار دیتے ہوئے صرف نکاح کروا دینے کا حکم نہیں دیا بلکہ اسے یہ پورے مذاہب میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ شادی کے موقع پر دیگر مذاہب میں زیادہ سے زیادہ بزرگوں اور حاضرین کی طرف سے دلہا دلہن کو کچھ دعائیں (آشیرواد) دی جاتی ہیں۔ لیکن اسلام میں اس اہم موقع پر دلہا دلہن کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ اب ایک نئی دنیا بسانے جارہے ہیں، لہٰذا اب تمہارے درمیان، محبت و الفت اور مروت و ہمدری اور قلبی لگائو کے فروغ کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ تم اپنی زندگی میں سچائی کو اختیار کرو، اللہ سے ڈرو‘ رشتہ داری کا خیال رکھو‘ خدا تم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تم مسلمان ہو لہٰذا پوری زندگی اسی کے تحت گذارو اور تمہارا خاتمہ بھی مسلمان کی حیثیت سے ہونا چاہئے۔ اور خدا کا تقویٰ تمہاری ازدواجی زندگی میں ہمیشہ جاری و ساری رہے اور اس بات کو خاص طور پر رکھا جاتا ہے کہ اگر زوجین خدا کے خوف اور سچائی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے تو خدا تعالیٰ اعمال کی اصلاح فرمائے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بشری کمزوری کی بناء پر کچھ گناہ ہوجائے تو وہ تمہیں معاف بھی کردے گا پھر آگے یہ بھی خوشخبری سناتی جاتی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا وہ بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا‘ یعنی دنیا کی ذلت سے بچے رہے گا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ ہوجائے گا۔
مذکورہ تحریر خطبہ نکاح مسنونہ کا خلاصہ ہے جس میں ایمان و تقویٰ کو اہمیت دی گئی ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی ایک مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تم کو پسند ہو اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کی شادیاں نہ کرو، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام ایک مشرک شریف زادے سے بہترہے، اگرچہ وہ تم کو پسند ہو۔ (سورۃ البقرہ: 221)
اب جو مردو خواتین اپنے کو مسلمان کہتے ہوئے اگر غیر مسلمان مرد عورت سے شادی کرنا چاہتے ہوں تو قرآن حکم کے اس حکم کو اچھی طرح پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ دنیا اور اس کی زینت و آسائش انہیں پسند ہیں یا ایمان عزیز ہے؟
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے