ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ
9986437327
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کے بعد سے سوشیل میڈیامیں بڑے پیمانے پر بے چینی دیکھی جارہی ہے،کسی حلقے میں دعاکی جارہی ہے تو کسی گروہ میں افسوس ظاہرکیاجارہاہے۔بعض نے مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کوغیر قانونی وغیر آئینی قراردیاہے۔غرض جتنے منہ اُتنی باتیں،جتنے لوگ اتنے طریقے دیکھنے کو سننے کو اور پڑھنے کو مل رہے ہیں۔انہیں میں سے کچھ لوگ اس بات کاحوالہ دے رہاہیں کہ مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری سُنت یوسفی ہے،جیل جانا بھی انبیاء وپیغمبروں کی سُنت ہے،یقیناً یہ سُنت پیغمبروں کی ہے لیکن شائد اہل علم ومسلمان اللہ کے رسول ﷺکے غزوہ بدر،غزوہ خندق،غزوہ تبوک،غزوہ اُحد اور فتح مکہ سے قبل کے غزوئے بھول گئے ہیں جو صرف سُنت یوسفی کو یاد کئے جارہے ہیں۔شائد مسلمانوں نے حضرت عمر کی خلافت،حضرت کی جدوجہد،سلطان صلاح الدین ایوبی کا فاتحانہ کردار،محمد بن قاسم کا دور اور حضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ کی جدوجہد ،عمر مختار کی آوازکو بھی بھلا بیٹھے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اب صبرکی بات کو لیکر بھی مسلمان یہ حوالہ دینگے کہ مسلمانوں کے پاس حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر آجائے۔سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کے وہ جہدکار ،شعلہ بیان،فاتح کلام،شیر،ببر شیر،شمشیرِ اسلام کہاں چلے گئے جو اس وقت قوم کو اجاگر کرنے کے بجائےسُنت یوسفی کی دوہائی دے رہے ہیں۔ایک مسلمان کا ایک عقیدہ زندگی اور موت،موت برحق ہے اور ہرنفس کو اس کا مزہ چکنا ہے۔تو وہ کونسی حکمت ہے جو حق کو حق کہنے سے روک رہی ہے۔باربار یہ کہاجاتاہے کہ آج یہ تو کل وہ،اور پرسوں ہم۔آخر کیا بات آگئی جو مسلمان پرسوں کا انتظارکررہے ہیں۔کیا دستورہندمیں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمان ہو یا بھارت کے شہری جو اپنے حق کیلئے آواز اٹھا سکے۔دستورنے تو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے مذہب ودین کی تبلیغ کرسکتاہے اور اپنے دین ومذہب کے تعلق سے لوگوں کا دعوت دے سکتاہے۔لیکن حکومت اسی قانون کو کھلے عام نظرانداز کررہی ہے اور بزرگ علماء جو ان کے ماتحت کام کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں انہیں جیلوں میں ٹھونسا جارہاہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کاجیل جاناتو الگ معاملہ تھا،لیکن اسی کو بنیاد بنا کر ہم اگر اپنے جذبہ ایمان کو کمزور کرلیتے ہیں تو کل مسلمانوں کو ختنہ کرنے سے بھی روکاجائیگا تو پھر مسلمان یہ کہیں گے کہ یہ تو سُنت ابراہیمی ہی ہے اگر یہ چھوٹ جائے تو کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ہم باربار اس لئے کہتے ہیں کہ اب بھی مسلمانوں کی طاقت کودیکھ کر ظالم حکمران خوف کھاتے ہیں،کتنے مسلمانوں کویہ جیلوں میں بھرینگے اور کب تک مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے رہیں گے۔اگر مسلمانوں کی صف اول کی قیادت اس معاملے میں مداخلت کرتی ہے تو یقیناً حکمرانوں کے ہوش اُڑ سکتے ہیں۔یہ بات اور ہے کہ کچھ صف اول کے قائدین اپنے مفادات کی وجہ سے کھوکھلے ہوچکے ہیں اور وہ ظالم حکمرانوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتے ،ہاں اگر وہ زبان کھول بھی سکتے ہیں تو وہ خالص حکمرانوں کی خوشنودی اور چاپلوسی کیلئے کھولے گیں۔اس کے علاوہ حق گوئی کیلئے ان کی زبانیں نہیں کھولیں گی۔ایک طرف یہ مسئلہ ہے تو دوسری طرف عمر کا تقاضہ بھی ہے جس کی وجہ سے کئی صف اول کے قائدین آواز بلند کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ صف اول کی قیادت میں بھی تبدیلی لائی جائے ،کیونکہ میدان میں اترنا نوجوانوں کیلئے افضل ہے اور بزرگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ہماری تنظیموں کے بیشتر سربراہان کو دیکھئے کہ وہ بزرگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ہم مذاقیہ طنز نہیں کررہے ہیں بلکہ حقیقت بیان کررہے ہیں کہ کس طرح سے آر ایس ایس اور سنگھ پریوارکے لوگ جو بزرگ ہوچکے ہیں وہ پس پردہ رہ کر اپنے مشن کوآگے بڑھا رہے ہیں اور نوجوانوں کو پردے پر لاکر کام کررہے ہیں۔کیا کبھی سنگھ پریوارکے بزرگوں کو منظرِعام پر دیکھا گیاہے؟۔آج جو تدابیر مسلمانوں کے تھے وہ غیروں نے اپنائے ہیں اور مسلمانوں پر مسلط ہورہے ہیں،جبکہ مسلمان اپنے حکمرانوں کی تدبیروں کو نظرانداز کرتے ہوئے شہادت کی تمنادسترخواں پر بیٹھ کر رہے ہیں۔اسی وجہ سے مسلمان دن بدن کمزور وناکام ہوتے جارہے ہیں۔اب وقت ہے سوچ بدلنے کا،وقت بدلنے کا ۔