نئی دہلی، 25 ستمبر (اسید اشہر) گذشتہ دنوں آسام کے درنگ ضلع میں پولیس کے ذریعے دو مسلمانوں کے قتل کے خلاف اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا آغاز کیا گیا ہے۔
ملک گیر احتجاج کے اعلان کے بعد اب تک ملک کے متعدد مقامات جیسے دہلی، کولکتہ (مغربی بنگال)، دربھنگہ (بہار)، ناگپور (مہاراشٹر) اور کیرالہ کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوچکے ہیں۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد آسام پولیس کے ان اہلکاروں پر کاروائی کی جائے جنہوں نے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
دو مسلمانوں کا سرِ عام قتل، اور ایک میت کے جسم کی بے حرمتی فسطائی ہندوتواوادی ریاست کا ظالمانہ اور فرقہ وارانہ چہرہ ظاہر کرتی ہے۔ ایس آئی او کے قومی صدر محمد سلمان احمد نے کہا کہ اس طرح سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا آسام میں لوگوں کے تحفظ پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہیمنتا بسوا شرما انتظامیہ منظم طریقے سے ریاست میں مسلم آبادی کے ساتھ مسلسل غیروں والا سلوک کر رہی ہے اور اذیت دے رہی ہے۔ اس عمل میں اس نے پولیس فورس سمیت معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو فرقہ پرست بنا دیا ہے۔
جب سے آسام میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس نے اقلیتی برادری کے زیر اثر علاقوں میں ہزاروں لوگوں کو بے دخل کرنا شروع کیا ہے۔ ضلع درنگ میں بے دخل کیے گئے 900 خاندانوں کو فوری طور پر غذائی خوراک، پناہ گاہ اور قانونی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے ریاست نے ان پر ظلم و جبر کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں دو لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔
سلمان احمد نے کہا کہ یہ ریاستی حکومت کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ درنگ ضلع اور دیگر جگہوں پر مزید بے گھر خاندانوں کی بحالی کرے۔ اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں لوگوں کو اپنے گھروں سے جبری بے دخلی اور گھروں کے انہدام سے تحفظ کو انسانی حقوق میں شمار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں یہ بھی کہا ہے کہ مناسب رہائش بھی ایک بنیادی حق ہے اور دستور کے حق زندگی کا ایک حصہ ہے۔
ایس آئی او نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی حکومت کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے ظالمانہ حملے میں ملوث عہدیداروں اور پولیس افسران کو سزا دے کر انصاف فراہم کیا جائے۔ تنظیم نے امید جتائی ہے کہ جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ جلد از جلد منظر عام پر لائی جائے۔ نیز دونوں مہلوکین کے لواحقین کو ایک ایک کروڑ روپے اور شدید زخمیوں کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔