26 ستمبر کو ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی کو ان کے یوم وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اردو کی خدمت کو مقدم کرنے کی ترغیب دینے کے مقصد کے تحت یہ مضمون پیش خدمت ہے، ہمارا عزم ہے ” اردو بچاؤ، مذہب بچاؤ، تہذیب بچاؤ ” اور آپ کا عزم ۔۔۔۔۔؟
ازقلم: محمد رفیع
9931011524
rafimfp@gmail.com
بہار کی سرزمین مجاہد آزادی سے بھری ہے۔ فہرست میں مسلم مجاہد آزادی کی تعداد بھی کم نہیں ہے، مولانا مظہر الحق سر فہرست ہیں تو وہیں مظفر پور کے لال، بابائے اردو، رہبر قوم و مجاہد آزادی ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی بھی سرکردہ ہیں۔ ان کی پیدائش 3 مارچ 1900 کو ڈیہولی، مظفر پور میں ہوئی۔ 26 ستمبر 1966 کو مظفر پور واقع اعجازی ہاؤس میں ان کا انتقال ہوا اور قاضی محمد پور پنکھا ٹولی میں وہ مدفون ہوئے۔ ان کی تعریف ‘ خراج عقیدت ‘ میں ڈاکٹر ایم آر کاظمی، ڈاکٹر اکھلیشور شرما و معین شاہد نے کیا خوب لکھا ہے کہ ڈاکٹر اعجازی بیک وقت ایک مرد مومن، ایک عظیم مجاہد آزادی، قومی ملی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک بے لوث قومی سیاسی، سماجی و ملی کارکن، ایک مبلغ و مصلح قوم ، ایک بہترین اسپورٹس مین، وقت کے نباض ، اعلیٰ ذوق کے شاعر، بلند پایہ نثار، و مؤثر مققر، ماہر طبیب، مائہ ناز واعض دین، ہمدرد قوم، محب ملک و قوم، وطن کے جانشار، ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور اردو زبان کے شیدائی و فیدائی۔ بالفاظ دیگر وہ ایک عظیم انسان تھے جو ہمئہ رنگ شخصیت کے مالک تھے۔ ڈاکٹر اعجازی کی زندگی کو چند صفحات میں بیان کرنا ایسا ہے گویا سمندر کو کوزہ میں بھرنا۔ وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے ان کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں۔ اور ہر پہلو اپنے آپ میں مکمل ہیں۔
ملک کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کرنے والے مہاتما گاندھی، ڈاکٹر راجندر پرساد، سابق صدر جمہوریہ ہند، راج گوپال آچاریہ سابق گورنر جنرل ہند، ڈاکٹر رادھا کرشنن سابق صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر ہند، ہدایت اللہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ و قائم مقام صدر جمہوریہ ہند، فخرالدین علی احمد، خلافت مہم کے علی برادران، بی آما، آچاریہ کرپلانی، راجا بی، شفیع داؤدی، ڈاکٹر مختار انصاری، حکیم اجمل خان، سروجنی نائیڈو، سبھاش چندر بوس و مولانا مظہر الحق جیسی شخصیات سے ان کے قریب کے مراسم تھے۔ ٹو نیشن تھیوری، 1921 کے احمد آباد کانگریس اجلاس میں بحیثیت ڈیلیگیٹ ڈاکٹر اعجازی نے شرکت کی اور مولانا حسرت موہانی کی مکمل آزادی کی تجویز کی تائید کی جہاں گاندھی جی سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ وہیں مرکزی خلافت کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مولانا محمد علی جوہر کی ہدایت پر کلکتہ گئے، خلافت کمیٹی کلکتہ کا دفتر سنبھالا وہیں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی قیادت میں مظاہرہ کے دوران گرفتار ہوئے۔ کلکتہ کے قیام کے دوران شہر کے نارکل ڈانگا محلہ میں ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ نہرو ریپورٹ کی تیاری اور اس پر غور خوض کرنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کے لئے مرکزی خلافت کمیٹی کے نمائندہ کی حیثیت سے ممبر منتخب ہوئے۔ اس کمیٹی کے دوسرے ارکان میں مولانا شوکت علی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا سجاد وغیرہ شامل تھے۔ آل پارٹیز کا کانفرنس اور آل مسلم پارٹیز کانفرنس کی لکھنؤ، دلی اور پٹنہ اجلاس میں بھی انہوں نے شرکت کی۔ جنا کی دو قومی نظریہ سے بد جن ہو کر اس کی مخالفت کے لئے راجا محمود آباد کے ساتھ مل کر آل انڈیا جمہور مسلم کی بنیاد ڈالی جو بعد میں کانگریس میں ذم ہوگئی۔ سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد سے ان کے مراسم کا اندازہ کچھ یوں لگایا جا سکتا ہے1934 کے زلزلہ آیا تھا تو اعجازی ڈاکٹر راجندر پرساد کے ساتھ مل کر راحت کاری کا کام کئے تھے، اس دوران ایک رات ایسی بھی گزری کہ ان لوگوں نے ایک درخت کے نیچے اینٹ کا تکیہ بنا کر سویا۔ مقامی سطح پر بھی ان سرگرمیاں رہیں، مظفر پور میونسپل بورڈ کے تا حیات وہ صدر رہے۔ بہار یونیورسٹی کا صدر دفتر پٹنہ سے مظفر پور لانے کی جدوجہد کے واسطے جو کمیٹی بنی ڈاکٹر اعجازی اس کے کنوینر بنائے گئے اور آچاریہ جے بی کرپلانی، اشوک مہتا، مہیش پرساد سنہا و مہامایا پرساد سنہا وغیرہ اراکین کمیٹی کی شکل میں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی ایسی شخصیت میں ہیں جنہوں نے ملک کی آزادی کے بعد اقتدار کی سیاست سے خود کو الگ کر لیا اور ملک و قوم کی خدمت میں اپنا آخری سانس تک لگا دی۔
ملک اور قوم کی خدمت کے ساتھ ہی وہ اردو کے بہت بڑے خادم تھے۔ اردو کی خدمت کو ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی نے مقدم رکھا۔ اردو سے ان کو والہانہ محبت تھی یوں کہا جائے کہ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا سب اردو کے لئے تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ اردو کی تمام تحریکوں میں وہ پیش پیش رہے۔ ہفتہ روزہ قومی تنظیم، دربھنگہ کے اردو کانفرنس نمبر 16 جون 1966 کے مطابق ڈاکٹر اعجازی نے 4 جون کو سیوان کے ایک پرزور تقریر میں کہا تھا ” اردو ہماری مشترکہ زبان ہے۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے، ان کی مادری زبان صرف اردو ہے اور اردو زبان کا سوال ان کی زندگی اور موت کا ہے۔ کیونکہ جس قوم کی زبان مٹ جاتی ہے اس قوم کا نام بھی مٹ جاتا ہے۔ ” 13 مارچ 1966 کو مظفر پور میں ضلعی سطح پر ایک اردو کانفرنس کا انعقاد مظفر پور میں سابق ایم ایل سی و مدیر روزنامہ ‘ صدائے عام ‘، پٹنہ سید نظیر احمد کی صدارت میں ہوئی جس میں ڈاکٹر اعجازی پیش پیش رہے اور کئی اہم تجاویزیں پاس کروائیں۔ آزادی کے بعد انہوں نے 3, 4 دسمبر 1960 کو مظفر پور میں ایک تاریخی کل ہند کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں استقبالیہ خطبہ انہوں نے خود پڑھا تھا۔ کانفرنس سے پہلے 3 دسمبر 1960 کو مظفر پور ریلوے اسٹیشن سے ایک تاریخی جلوس نکالا گیا جس میں قریب دس ہزار افراد نے شرکت کی۔ اس جلوس میں بچے، بوڑھے اور جوان شامل ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ جوانوں کی تعداد تھی۔ روزنامہ سنگم کے مطابق اس کے شرکاء میں ممبران پارلیمنٹ، اسمبلی و کانسل، کانگریس، سوشلس
ٹ،
فارورڈ بلاک، سوتنترا پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے نمائندہ، وکلاء، معالجین، مدرسین، طلبہ، تجار، ادباء، شعراء، ہندو، مسلمان، سکھ، مرد، عورتیں، پارسا، شیخ اور براہمن بھی شامل تھے۔ آزادی کے بعد کے سب بڑے اور سب کامیاب ترین اس کانفرنس کا، اس کی حقیقت کا اعتراف ہر سنجیدہ و ایماندار طبقہ نے کیا تھا۔ اس کانفرنس کی ایک بڑی بات یہ تھی کہ ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کے مطالبہ کی آواز بلند ہوئی۔
اردو سے محبت اور اردو تحریک سے قلبی رشتہ کی وجہ سے ہی کلام حیدری، مدیر ہفت روزہ ” اردو مورچہ ” گیا میں ڈاکٹر اعجازی کے بارے میں لکھا تھا ” ڈاکٹر اعجازی بہار کے بابائے اردو تھے ” وہیں ان کی رحلت پر تعزیاتی بیان میں خادم اردو بیتاب صدیقی نے کہا تھا ” اردو کا ایک جانباز سپاہی ہمارے درمیان سے اٹھ گیا۔” یہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیت کا ثبوت پیش کیا تھا لیکن اردو کی خدمت کر کے انہوں نے ایک مسلمان ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آج کی نئی نسل میں بھی اعجازی خاندان میں اردو کے ساتھ ہی قوم و ملت کی خدمت کا جزبہ ہے۔ مظفر پور کے مشہور وکیل اصغر حسین اعجازی نے بھی مشہور غزل گو، شاعر قمر اعظم ہاشمی کے ساتھ اردو کے لئے کام کیا کیا تھا۔ وہ اردو کے نامور صحافی بھی تھے جس کا ایکریڈیشن حکومت بہار سے تاعمر رہا۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، اصغر حسین اعجازی کے صاحبزادے و ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی کے پوتا ڈاکٹر رضوان احمد اعجازی بھی اردو سے والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ اردو کی کہیں بھی کوئی بات ہوتی ہے وہ مستعد رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مضمون کو لکھنے کی ترغیب مجھے ڈاکٹر رضوان احمد اعجازی سے ہی ملی، انہوں نے ہمیں ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی کے متعلق تفصیلات سے روبرو کرایا اور قلم اٹھانے کو مجبور کیا۔ اقلیتی کمیشن بہار کے ممبر سکریٹری ڈاکٹر منصور احمد اعجازی، ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی کے چھوٹے صاحبزادے ہیں، ریاستی سطح پر قوم و ملت کے ساتھ ہی اردو کی خدمت میں منہمک رہتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پرانی اردو تحریک جس کی ڈاکٹر اعجازی نے بنیاد رکھی تھی اسے مستحکم کیا جائے اور اسے قوم کی خدمت سمجھ کر انجام دیا جائے۔ 1960 میں مظفر پور میں دس ہزار کی جلوس ہو سکتی ہے تو آج ریاستی سطح پر لاکھوں کا مجمع کیوں نہیں ہو سکتا۔ ضرورت ہے ایک کاآرڈینیشن کمیٹی بنا کر تمام رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ تنظیموں کو ایک ساتھ جوڑنے کی۔ ابھی معقول وقت ہے، وزیر اعلیٰ نتیش کمار اردو دوست ہیں، ہمارے اردو کے روح رواں جو پٹنہ میں متحرک ہیں ایک خاکہ تیار کریں اور ‘ دین بچاؤ دیش بچاؤ ‘ کی طرز پر ‘ اردو بچاؤ، مذہب بچاؤ، تہذیب بچاؤ ‘ کانفرنس کا انعقاد کریں، ریاست کے تمام اضلاع میں جلوس نکالیں اور سرکار کے ساتھ دو ٹوک بات کریں، اردو کی لازمیت برقرار رہے، دوسری سرکاری زبان کا درجہ کاغزی نہیں عملی ہو، ہر گلی محلہ، چوک چوراہوں پر ہندی کے ساتھ ساتھ اردو بھی دکھے، اس کے ساتھ ہی دیگر مسائل پر بھی بات ہو، اگر ہم اب بھی بیدار نہیں ہوتے ہیں تو ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی کی کہی بات سچ ثابت ہو سکتی ہے کہ جس قوم کی زبان مٹ جاتی ہے اس قوم کا نام بھی مٹ جاتا ہے۔