تحریر: ساجد محمود شیخ، میراروڈ
٩ نومبر کو علامہ اقبال کی یومِ پیدائش کی نسبت سے عالمی یومِ اردو منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ،مضامین ،مراسلے لکھے جاتے ہیں،مشاعرے اور ادبی مجالس منعقد کی جاتی ہے،سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو وہاٹس آپ کے اسٹیٹس رکھے جاتے ہیں وہاٹس آپ پر تہنیتی پیغامات ارسال کئے جاتے ہیں اردو زبان کی اہمیت پر بیانات جاری کئے جاتے ہیں اس زبان کی خوبیاں گنوائی جاتیں ہیں۔
عالمی یومِ اردو پر اُردو کی زبوں حالی کا بھی ذکر گفتگو میں آتا ہے اردو کی زبوں حالی پر باہمی مذاکرات لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ان مذاکرات اور گفتگو کا بڑا حکومت کو برا بھلا کہنے پر مشتمل ہوتا ہے اہل اردو ،اپنی زبان کے تیئں حکومت کی سرد مہری اور عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آزادی کے بعد اردو زبان کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اردو مسلمانوں کی زبان سمجھا گیا اور جس طرح مسلمان اس ملک میں مذہبی بنیاد پر تعصب کا شکار ہوئے اُسی طرح اردو زبان بھی تعصب کا شکار ہوئی یہ اہل وطن کی تنگ نظری تھی کہ اُس زبان کے ساتھ تعصب برتا ہے کہ جس زبان نے وطن عزیز کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اردو کے قلمکاروں نے اپنے قلم کے ذریعے آزادی کی تحریک کو جلا بخشا اردو زبان کی شاعری نے جنگ آزادی میں نئی جان ڈال دی انقلاب زندہ باد جیسا انقلابی نعرہ اردو زبان نے مجاہدین آزادی کو دیا مگر آزادی کے بعد اِس زبان کو یکسر فراموش کر دیا گیا بقول ساحر لدھیانوی کے آزادی کے بعد اردو معتوب زبان ٹھہری ۔ دھیرے دھیرے اردو ہندوستان کے گوشے گوشے سے ختم کی جانے لگی اردو کا وجود ناقابل برداشت نظر آنے لگا ۔ حالانکہ اہل سیاست بھی اردو زبان کے دلدادہ تھے چند برسوں قبل تک سیاست دانوں کا ذریعہ تعلیم اردو رہا ہے بابری مسجد کی شہادت کے وقت ملک کے مرکزی وزیر داخلہ ایس بی چوہان عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو ذریعہ تعلیم سے گریجویٹ تھے اس کے علاؤہ بہت سے غیر مسلم سیاست دانوں کے نام گنائےجا سکتے ہیں جنھوں نے اردو زبان سے تعلیم حاصل کی۔ سیاست دانوں کو اردو اتنی پسند تھی کہ پارلیمنٹ میں مباحثوں کے دوران اردو کے اشعار پڑھ کر حکومت پر حملے کئے جاتے اور مخالفین کے جوابات بھی دئیے جاتے۔ اردو غزل کے ہر خاص و عام دلدادہ رہے ہیں مگر ان سب باتوں کے باوجود کسی نے بھی اردو زبان پر توجہ نہیں دی کسی مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت نے کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو اردو زبان کی ترقی وترویج کا باعث بنے ۔ مسلمانوں کے ووٹ سے بننے والی سیکولر حکومتوں نے اردو زبان سے ہمیشہ دوری بنائے رکھی دکھاوے کے لئے اردو زبان کی ترقی وترویج کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی سابق وزیر اعظم گجرال صاحب کمیٹی کے صدر تھے گجرال کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کیں مگر انھیں سرد خانے میں ڈال دیا گیا جب گجرال صاحب خود وزیراعظم بنے تو ان کی توجہ انھیں ہی کی سفارشات کی جانب مبذول کرائی گئی تو بھی وہ کچھ نہیں کر پائے۔
اہل اردو کو اُردو زبان کے تیئں حکومت کی سرد مہری و تعصب کا رونا رونے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے مانا کہ حکومت اردو زبان کے تعلق سے تجاہل عارفانہ سے کام لے رہیں تھیں مگر اہل اردو نے اپنی زبان کی بقاء کے لئے کیا کوششیں کیں سیکولر حکومتوں نے سال میں ایک عدد مشاعرہ کے انعقاد کو کافی سمجھا اور ہم بھی اس پر قانع رہے نہ ہم نے کبھی اس سے بڑھ کر کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی ہماری خواہش رہی۔ مسلم ممبرانِ پارلیمان سے لے کر گلی محلے کے چھوٹے قد کے مسلم قائدین نے بھی اس مشاعرے کو غنیمت جانا اور اس میں شرکت کی دعوت پر خوش ہوتے رہے۔ اس دوران دھیرے دھیرے ہر حکومتی شعبہ سے اردو کو ختم کردیا گیا اردو ذریعہ تعلیم کے اسکول بند ہوتے رہے اردو اسکولوں کو حکومتی امداد ختم کر دی گئی ہر ناانصافی کو مسلم سیاست دان خاموشی سے دیکھتے رہے مگر کبھی لب کشائی نہیں کی ۔
اردو زبان کی زبوں حالی کے خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں حالانکہ ارباب اقتدار کی جانب سے عدم توجہی برتی گئی مگر اس دوران بہت سے مواقع اور حکومتی سہولیات موجود تھیں جب اردو اسکولوں کو حکومتی امداد فراہم کی جاتی تھی اس وقت بھی خود مسلمان اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل کرنا پسند نہیں کرتے تھے نتیجتاً اردو اسکول یکے بعد دیگرے بند ہونے لگے جن لوگوں نے اردو ذریعہ تعلیم سے فارغ ہو کر دنیا میں کامیاب ہوئے وہی لوگ اپنے بچوں کو اردو ذریعہ تعلیم کے اسکول میں داخل کروانا باعث شرم سمجھنے لگے اردو کی روٹی کھانے والے اساتذہ اور کالج کے پروفیسر حضرات بھی اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل کروانا نہیں چاہتے ہیں جب اردو داں طبقہ ہی اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل نہیں کروائے گا تو آخر ان اسکولوں میں کون داخلہ لے گا۔ جو لوگ اردو زبان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جو اردو کے لئے کوششوں کا دم بھرتے ہیں اُنہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ خود اُن کے بچے کس میڈیم سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اردو زبان کی ترقی وترویج کی باتیں کرنے سے پہلے اردو کی بقاء کی فکر کی جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ جب کوئی اردو بولنے والا سمجھنے والا باقی ہی نہیں رہے گا تو اردو زبان کیسے باقی رہے گی اردو زبان کو باقی کو باقی رکھنے کے لئے اہل اردو کو اُردو زبان اپنانا ہوگا اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل کروانا ہوگا اپنے گھروں میں اردو کو رائج کرنا ہوگا روزمرہ کی زندگی میں بولی جانے والی بول چال میں اردو زبان کے الفاظ کا استعمال کرنا ہوگا ۔ آج بھی یونین پبلک سروس کمیشن اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات میں اُردو زبان میں لکھے
جا
سکتے ہیں تو کیوں نہ ہم اردو میں امتحان لکھ کر اس زبان کو دوام بخشیں۔ اپنے کاروبار مراکز و دفاتر کے سائن بورڈ کا نام بھی انگریزی و مراٹھی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھنا چاہیے جس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہم رہتے ہیں وہاں بلڈنگ کے نام کی تختی پر اُردو کا بھی استعمال ہو ۔ اردو زبان کی بقاء کے لئے ہمیں اردو کے اخبارات کا زندہ رکھنا بھی ضروری ہے ایسے کتنے صاحب حیثیت افراد ہیں جو اخبار خرید کر پڑھنے کی استعداد رکھتے ہیں اور اخبار خریدتے ہوں گے اردو اسکولوں میں ملازمت پیشہ افراد بھی اردو کا اخبار نہیں خریدتے ہیں ۔ اُردو زبان کی بقاء،ترقی و ترویج کے لئے صرف سطحی کوششوں سے کام نہیں چلنے والا ہے اس کے لئے باقاعدہ مخلصانہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔
اُردو زبان کی اہمیت مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ ہے ۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہب اسلام کا لٹریچر عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ اردو زبان میں موجود ہے برصغیر میں مسلمانوں کی شاندار تاریخ اردو میں رقم ہے ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی بے مثال کوششوں اور قربانیوں کا بیان صرف اردو زبان میں ہی ملتا ہے ۔ اردو سے ناطہ توڑنے کا اپنے اسلاف سے ناطہ توڑنے جیسا ہے اردو زبان سے بے رخی مذہبی تعلیمات سے دوری ثابت ہو سکتی ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کا ثقافتی وجود اردو کی مرہون منت ہے۔ خدا اس ملک کے مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین۔
ان ناموافق حالات میں بھی آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اردو زبان کو کلیجہ سے لگائے ہوئے ہیں اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں تعلیم دلا رہے ہیں۔اردو کے اخبار خرید کر پڑھ رہےہیں روزمرہ کی گفتگو میں اردو زبان کو اپنائے ہوئے ہیں انہیں ہی بہادر اور غیور لوگوں کی بدولت اردو زبان باقی ہے ہم ایسے لوگوں کو سلام کرتے ہیں۔
سلیقے سے جو ہواؤں میں خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں۔