عالمی یوم اردو کی مناسبت سے شعبہ اردو جامعہ سری شنکر اچاریہ برائے سنسکرت کے زیر اہتمام یوم اردو کا انعقاد


کیرل( پریس ریلیز )
اردو کسی ایک علاقہ، کسی ایک شہر اور کسی ایک ملک کی زبان نہیں، بلکہ یہ عالمی زبان ہے، آج یہ تقریبادنیا کے اکثر علاقوں میں بولی، پڑھی ، لکھی اور سمجھی جاتی ہے، نیز ڈاکٹر علامہ اقبال کے افکار و خیالات کو نونہالوں کے ذہن و دماغ میں پیوست کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی یوم اردو کی مناسبت سے منعقدہ سری شنکر اچاریہ برائے سنسکرت یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے آن لائن پروگرام سے مقررین نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام میں شعبہ اردو کے اساتذہ، ریسرچ اسکالر، طلباء وطالبات کے علاوہ قطر اور دوبئی سے تقریبا درجنوں کی تعداد میں شائقین اردو لوگوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر صدر شعبۂ اردو پروفیسر عطاء اللہ خاں سنجری نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال پاکستان کے شاعر تھے، یہ ان کی غلط فہمی ہے، بلکہ اقبال ملک کی تقسیم سے قبل ہندوستان کے شاعر تھے۔ انہوں یہ بھی بتایا کہ دراصل کچھ لوگوں نے اقبال کی سال وفات 1938 کے بجائے 1948سمجھ لیا ہے، جس کی وجہ سے ان کو غلط فہمی ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقبال کی نظم "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا”  آزادی سے قبل لکھی تھی جس کی دھوم آج بھی جشن یوم آزادی کے موقع پر ہمیں سننے کو ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری اتنی مشہور ہے کہ اس کی رسائی خلا تک ہوچکی ہے۔ ایک سائنس داں سے اندرا گاندھی نے جب پوچھا کہ خلا سے تم نے ہندوستان کو کیسا پایا تو اس نے جواب دیا "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا”
ماہر اقبالیات ڈاکٹر ضیاء الرحمان فلاحی صاحب نے اپنے خطاب میں بتایا کہ اقبال کی نظم میں وہ تاثیر ہے کہ بغیر سمجھے ہوئے بھی لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہوں نے اردو کی ترقی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس کے رسم الخط کو زندہ رکھا جائے، آج رومن انگلش کا عام چلن ہوتا جارہاہے جو نقصان اردو کے لیے کافی نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر محمد قاسم گیسٹ فیکلٹی شعبہ اردو نے  علامہ اقبال کے استاد میرحسن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اقبال کی کو اقبال بنانے میں ان کے استاذ میر حسن کا اہم رول ہے۔ قطر سے جناب مظفرحسین صاحب  نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ اقبال کے اسرارو رموز اور ان کی بے خود ی میں مسلمانوں کی ترقی کے بہت سے رازپنہاں ہیں، ان پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنے ماضی سے سبق حاصل کرسکتے ہیں اور مستقبل  کو بہترسے بہتر بناسکتے ہیں۔ شاعر اور انگریزی ادب کے نبض شناس شاعر سرفراز جذبی (قطر) نے اپنی نظم اقبال اور بچے میں اقبال کے پیغام کو بچوں تک پہونچانے کی کامیاب کوشش کی۔ شعبہ اردو کے گیسٹ لکچرر ڈاکٹر رضوان صاحب نے اقبال کے متعلق اپنی ایک اچھوتی نظم سے سامعین کو قلوب کو گرمایا۔ شعبہ اردو کے ریسرچ اسکالر ساجد حسین ندوی نے”اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی” کو پیش کیا ساتھ ہی انہوں نے اردو کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اردو کی سب بڑی خدمت یہ ہوگی کہ ہم اردو کو اپنے گھروں میں زندہ رکھیں اور اپنی نسلوں کو اردو سے واقف کرائیں۔ اخیر میں شعبہ اردو کی طالبات نے اقبال کی دعائیہ نظم "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” کو مترنم آواز میں سنایا جسے سامعین نے خوب سراہا۔ اسی کے ساتھ یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے