اردو اکادمی کی بے بسی؛ شمشیر بے نیام

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327


کرناٹک میں اس وقت اردو اکادمی کی تشکیل کو لیکر مختلف مقامات پر چہ میگوئیاں ہورہی ہیں اور اردو اکادمی کی تشکیل کامطالبہ سوشیل میڈیا سمیت صرف اردو اخبارات میں کیاجارہاہے۔ریاست میں بی جے پی حکومت آئے ہوئے قریب چار سال ہونے آرہے ہیں،اس طویل مدت میں مختلف محکموں، زبانوں اور شعبوں کے اکادمیوں اور بورڈس کی تشکیل ہوئے تقریباً دو سال کا عرصہ بیت چکاہے،مگر اردو اکادمی کی تشکیل کے تعلق سے کسی نے بھی پُرزور آواز نہیں اٹھائی ہے۔ہاں اردو اکادمی کے مالی تعائون سے کچھ مقامات پرمشاعرے، جلسے، سمینار منعقدہوئے ہیں،مگر اکادمی کی کمیٹی کی تشکیل کیلئے جس طرح سے مضبوط آوازاٹھانے کی ضرورت تھی وہ نہیں اٹھائی جارہی ہے،اس سے صاف ظاہرہے کہ کرناٹک میں اردو زبان کو بھی کانگریس اور جے ڈی ایس سے جوڑ دیاگیاہے کیونکہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے دورمیں دم لئے بغیر اردواکادمی کی تشکیل کیلئے مطالبات کئے جاتے تھےاو رجابجا میمورنڈم دئیے جاتے تھے اور ان حکمرانوں کاجینا محال کردیتے تھے،مگر بی جے پی حکومت آنے کے بعد اردودانوں کا رویہ ایسا دکھائی دے رہاہے مانوکہ اردو کا تعلق بی جے پی سے بالکل نہیں ہے،اس لئے بی جے پی حکمرانوں کے درپر اردو دان نہیں جائینگے۔جو اردو دان چیخ چیخ چلاچلا کر کہتے ہیں کہ اردو کسی مذہب کی نہیں ہے او رنہ ہی کسی سیاسی پارٹی کی نہیں ہے،تو پھر کیوں یہ لوگ بی جے پی کے حکمرانوں سے اپنا مطالبہ پورانہیں کروارہے ہیں۔مسلمان اگر خود یہ پیش رفت نہیں کررہے ہیں کہ کرناٹک میں اردو اکادمی کی تشکیل ہو تو کیونکر حکمران اردو اکادمی کی تشکیل کرینگے؟۔یقیناً اردو اکادمی کی تشکیل اس وقت ضروری ہے ،مگر اکادمی کو تشکیل کروانے کیلئے اردو دانوں کی طرف سے جو پیش رفت ہونی تھی وہ نہیں ہورہی ہے،اگر ایساہی برتائو رہاتو یقیناً حکومت گلبرگہ اور بیدرمیں جو اردو بولنے والے بھاجپائی ہیں انہیں لاکر اردو اکادمی کی کُرسی پر بٹھا دینگے اور جو غیر مسلم اردو زبان سے واقف ہیں انہیں رتبہ دیکر اپنا ووٹ بینک مضبوط کرینگے۔غور طلب بات ہے کہ کوروناکے بعد تو حالات معمول پر آچکے ہیں،اس دوران کئی مقامات پر مشاعرے وسمینار ہوئے ہیں،لیکن مجال ہے کہ سب مل کر اردو اکادمی کی تشکیل کیلئے ہر علاقے سے مطالبہ کرتے،بعض تو یہ سوچ رہے ہیں کہ اکادمی کی تشکیل ہو یا نہ ہو ،لیکن ان کے مشاعروں و اردو کے پروگراموں کیلئے اکادمی کا اے ٹی ایم تو کھلا ہواہی ہے،انہیں کمیٹی سے کیا مطلب ہے؟۔ممکن ہے کہ اکادمی کی تشکیل نہ ہونے سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا،لیکن آنے والے کل میں اکادمی کو ختم کرنے کیلئے یہی بنیاد کافی ہے۔آزادی کے بعد سے اب تک کرناٹک میں اقلیتی محکمہ،وقف وحج کی وزارت پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی مسلمان ہی وزیر بنایاجاتاتھا،لیکن اس بار پہلی دفعہ ایک غیر مسلم وزیر بنا ہوا تھا اور بنی ہوئی ہے۔کل یہ ناممکن نہیں کہ کوئی اسی طرح کابندہ اردو اکادمی کا چیرمین بھی بن جائے اور "ماڑپا،بسپا،شنکرپا”اس کے اراکین بن جائیں۔اب مدت سے مختصر سی سہی کم ازکم کسی نہ کسی کو کچھ مہینوں کیلئے ہی کیوں نہ ہو چیرمین بنانے کیلئے اردو دان طبقہ آگے آئے۔حیرت ہوتی ہے کہ کئی وظیفہ یاب پروفیسران،سابق افسران اور سابق حکمران اپنے پرانے اثر کااستعمال کرتےہوئے مکتوبات روانہ کرتے ہوئے سماجی و کمیونٹی کیلئے درکار مطالبات پورا کراوتے ہیں،مگر اردو سے جڑے ہوئے سابق پروفیسران ایک طرف ،افسران ایک طرف اور حکمران ایک طرف ہوکر سماجی وملی مسائل کو اس قدر نظرانداز کردیتے ہیں مانوکہ زندگی میں انہوں نے بہت کچھ کردیاہے اور اب آخری وقت صرف تسبیح گننے میں لگانا چاہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے