10ڈسمبر1948 ء کا متحدہ منشور ایک حسین دستاویز ہے!!
تحریر:محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر:9849099228
اقوام متحدہ کی اہم ناکامیاں
اگرچہ اقوام متحدہ کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر میں بہت سارے کام ہورہے ہیں، لیکن یہ ادارہ دنیا میں ہونے والے کئی اہم انسانی المیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس وقت بھی یمن میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کوئی کاروائی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
اس عالمی ادارہ سے اب تک جو کچھ بھی ناکامی ہاتھ آئی ہے اس کی معقول وجہ ان مستقل پانچ ممالک کو اس کا ذمہ ٹھہرایا جانا غلط نہ ہوگا جو اپنے پاس ویٹو پاور رکھتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جمہوریت و آزادی اور اتفاق رائے کا دم بھرنے والے اور دیگر ممالک کو جمہوریت کا درس دینے والے ہی اپنے پاس ویٹو پاور رکھتے ہوئے جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں اور آزادی کا گلا دبا رہے ہیں۔ اور ان کا یہ دہرامعیار کہیں یا کچھ اور کہیں۔ جن ممالک سے ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں وہاں کی غیر جمہوری حکومت یا ڈکٹیٹر طرز حکمرانی پر یہ انگلی بھی نہیں اٹھاتے بلکہ ان کی پیٹھ تھپکتے ہیں۔ جناب ثقلین امام بی بی سی لندن اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کی ناکامی کے اسباب یہ بتاتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کی تشکیل اور اس کی ہیئت میں چند ایک بنیادی نقائص بتائے جاتے ہیں۔ مثلاً اقوام متحدہ کے پاس ماہرین کا ایک بڑا ذخیرہ ہے لیکن سلامتی کے معاملات میں حتمی فیصلہ سلامتی کونسل کرتی ہے، جہاں پانچ مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہے جو بعض اوقات عدل کے بجائے اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کیلئے اس طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔
یواین کے قیام کے بعد کی جنگیں
سویڈن میں اپسالا کانفلکٹ ڈیٹا پروگرام (UCPD) کے سیاسی تشدد کے بارے میں 2017ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق 1946ء کے بعد 285 مختلف مسلح تنازعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست 2017ء میں شائع ہوئی تھی اور ہم نے اس کے بعد بھی کئی نئے تنازعات دیکھے ہیں۔
’’آورورلڈ ان ڈیٹا‘‘ کے مطابق 1946ء کے بعد سے ہونے والی جنگوں میں تین ایسی جنگیں ہیں جن میں بہت بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے، جزیرہ نما کوریا کی جنگ (1950ء کی دہائی کے اوائل میں)، ویتنام کی جنگ (1970-1960 کے آس پاس کا دور) اور ایران اور عراق کے درمیان طویل جنگ (1980 کی دہائی) اور افغانستان پر سویت یونین کی مداخلت اوراس کے خلاف سی آئی اے کی خفیہ جنگ1980ء کی دہائی۔
اکیسیویںصدی میں افغانستان پر امریکی حملہ، مشرق وسطیٰ ، خاص طورپر عراق پر امریکی چڑھائی اور افغانستان، عراق اور شام میں خانہ جنگی ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنیں۔
ریاستوں کے درمیان جنگوں کے علاوہ جنگ کی ایک اور قسم میں بھی بہت زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ یہ تھی داعش، طالبان یا القاعدہ جیسی غیر ریاستی عسکری تنظیموں سے جنگ۔ ایسی غیر ریاستی تنظیموں سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کے پاس واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔
لیکن جنگ کے متاثرین کی تعداد مختلف جنگوں کے درمیان بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے، کورین جنگ (1953-1950) کے دوران بارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ دوسری بعض چھوٹی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بمشکل ایک ہزار تھی۔
اس وجہ سے جنگوں کی تعداد کے اعداد وشمار کو ان تنازعات کے سائز کے اعداد وشمار کے ساتھ تشریح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سن ستر کی دہائی میں 1975ء سے لے کر 1979ء کے درمیان کمبوڈیا میں خمر روگ کے دور میں ہونے والی نسل کشی میں ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ باوجود اس کے کہ خمر روگ بدترین قسم کی نسل کشی کی ذمہ دار تھی، اقوام متحدہ نے اس کی قانونی حیثیت کو جائز قرار دیا ہوا تھا۔
اگر ویتنام کمبوڈیا پر حملہ کرکے خمر روگ کو ختم نہ کرتا تو نہ جانے مزید کتنے معصوم لوگ نسل کشی کا شکار ہوتے۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں صومالی صدر محمد سید برے کی حکومت کے خاتمے کے بعد صومالیہ ایک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ صومالیہ کی خانہ جنگی بنیادی طور قبائلی لڑائیاں تھیں، اقوام متحدہ نے امن مشن کے تحت وہاں بین الاقوامی فوج تعینات کی تھی، لیکن امن قائم کرنے میں ناکام رہی۔ اب صومالیہ مزید گہرے بحران میں دھنس چکا ہے۔ شدت پسندوں اور صومالیہ کی کمزور حکومت کی حامی فوج کے درمیان جنگ نے امن کی کوششوں کو اور بھی زیادہ غیر موثر کردیا ہے۔ اب تک ذرائع کے مطابق اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مسئلہ فلسطین
مشرقی وسطی کا یہ تنازعہ آج بھی ایک سلگتی ہوئی آگ ہے جس میں اکثر وبیشتر چنگاریاں نکلتی رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے1948ء میں اسرائیل ریاست کے قیام کیلئے قراردادیں منظور کی تھیں۔ لیکن انہیں قراردادوں میںمقامی فلسطینی عربوں کا حق بھی تسلیم کیا گیا تھا اور ان کی اپنے آبائی گھروں میں واپسی کے حق کو بھی تسلیم کیا گیا تھا جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔
اس دوران 1967ء کی جنگ کے بعد جب اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرلیا تو اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 1967ء سے پہلے کی سرحد کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہوجائے۔ لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا، بلکہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی زمین پر یہودی بستیاں آباد کی ہیں جن کی وجہ سے اب دو ریاستی حل کا امکان بھی خطرے میں نظر آرہا ہے۔ اس وقت اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر آباد فلسطینیوں کا بلاکیڈ بھی کیا ہوا ہے جس کی اگرچہ بین الاقوامی برادری نے اگرچہ تائید نہیں کی ہوئی ہے تاہم اسرائیل کے خلاف کوئی موثر کاروائی بھی نہیں کی ہے۔
فلسطینی مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں انتہا پسندی بھی بڑھی ہے۔
روانڈا میں بدترین نسل کشی
براعظم افریقہ کے ایک ملک روانڈا میںہونے والی نسل کشی کیلئے اقوام متحدہ کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ نسل کشی 1994ء میں ہوئی تھی، جو ایک اسرائیلی مصنف ڈور گولڈ کے بقول کمبوڈیا کے علاوہ ہولوکاسٹ کے بعد بدترین نسل کشی تھی جس میں ہوتو قبائل کے افراد نے انتہائی بے دردی سے ٹوٹسی قبائل کے دس لاکھ افراد کو صرف سو دنوں میں قتل کردیا تھا۔
اس نسل کشی کے وقت اقوام متحدہ کی اس ملک میں بڑی تعداد میں موجودگی تھی، لیکن جب سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر بحث غیرنتیجہ خیز رہی، تو اس وقت کے انڈر سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اقوام متحدہ کی امن فوج کو واپس بلالیا اورسو دن سے بھی کم عرصے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کا بے دردی سے قتل عام ہوا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل نے فرانس کے زیر قیادت فوجی مداخلت کی منظوری دی جس کے نتیجے میں ہوتو قبائل کے قاتل افراد کو محفوظ پناہ گاہیں دی گئیں۔
روانڈا کے علاوہ اگر آپ اقوام متحدہ کے امن مشن کی کچھ اور سنگین ناکامیوں پر نظر ڈالیں، مثلاً صومالیہ اور انگولا جیسی جگہوں پر، تو اس ادارے کی کمزوریاں اور زیادہ عیاں ہوجاتی ہیں۔
روانڈا کی نسل کشی جس میں سو دنوں میں دس لاکھ افراد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اقوام متحدہ پر اس نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
چند مزید اہم تنازعات
حل نہ ہونے والے تنازعات میں مشترکہ وجہ یا تو بڑی طاقتوں کی آپس میں تقسیم ہے، یا جیو پولیٹیکل مفادات اتنے بڑے نہیں ہیں کہ ان میں بین الاقوامی دلچسپی زیادہ ہو۔
مثال کے طور پر سنہ 1990 کی دہائی میں روانڈا کی خانہ جنگی کے دوران اقوامِ متحدہ کا غیر فعال ہونا بڑی طاقتوں میں تقسیم کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس ملک کے نسلی تنازعے میں کوئی طاقت شامل ہونے کی سیاسی خواہش ہی نہیں رکھتی تھی۔
شام میں اس کے برعکس، روس اور امریکہ کے متضاد مفادات اور مخالف فریق ہیں: روس شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتا ہے، جبکہ امریکہ اْس کا مخالف ہے۔ اسی طرح یمن کے معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ اسے بڑی طاقتوں نے مقامی طاقت سعودی عرب کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے جو اس خانہ جنگی کا سبب ایران کی اس ملک میں مداخلت قرار دیتا ہے۔
بوسنیا میں مسلمانوں کا قتلِ عام
جولائی سنہ 1995 میں سریبرینیکا، بوسنیا میں اقوام متحدہ کی ایک بٹالین کی اقوام متحدہ کے اعلان کردہ فری زون میں موجودگی کے باوجود آٹھ ہزار مسلم شہری سربوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یورپ کی سرزمین پر اس سطح کے قتل عام کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔
یوگوسلاویہ کا یہ بحران جہاں بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، اس میں کل ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوئے، لیکن اقوام متحدہ پر تنقید ہوئی کہ وہ کوئی بھی موثر اقدام لینے میں ناکام رہا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بحران اس وقت حل ہوا جب امریکہ نے سلامتی کونسل کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست فوجی مداخلت کی تھی۔
اکیسویں صدی میں دارفور کے انسانی المیہ میں ظلم و جبر سے متاثرہ لوگوں کا دفاع کرنے میں بھی اقوام متحدہ ناکام رہا۔
عراق پر حملہ
سنہ 2003 میں امریکہ کی جانب سے عراق پر حملہ، جس کی (ادارے کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان سمیت بہت سے لوگوں کی نظر میں) کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر تھا، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس بڑی طاقتوں کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کی بہت ہی محدود صلاحیت ہے۔
اس حملے کی وجہ سے مختلف اندازوں کے مطابق کم از کم چار لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور یہ ایک بہت بڑی انسانی تباہی کا سبب بنا اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس حملے سے دہشت گردی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا۔
مہاجرین کے بحران
اقوام متحدہ کے ارکان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے یورپ میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی حالت زار سے نمٹنے کے لیے سنہ 1951 میں پناہ گزینوں کے لیے ایک کنونشن پر دستخط کیے۔ برسوں بعد سنہ 1967 پروٹوکول نے وقت اور جغرافیائی پابندیوں کو ہٹا دیا تاکہ اب یہ کنونشن عالمی سطح پر لاگو ہو سکے (حالانکہ اس کے ایک یورپی کنونشن ہونے کی وجہ سے ایشیا کے بہت سے ممالک نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا)۔
ان معاہدوں کے باوجود، اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے کام کے باوجود، تقریباً تین سے 4 کروڑ مہاجرین ہیں، ان میں سے بہت سے، جیسے کہ فلسطینی ہیں جو کئی دہائیوں سے اب تک اپنے وطن سے بے گھر ہیں۔ یہ تعداد اپنے ممالک میں چار کروڑ سے زیادہ بے گھر ہونے والے افراد کے علاوہ ہے۔
اگرچہ ایک طویل عرصے سے پناہ گزینوں کی تعداد کم ہو رہی تھی، تاہم حالیہ برسوں میں، خاص طور پر شامی تنازعے کی وجہ سے، بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد میں پھر سے اضافہ ہوا ہے۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی جبری بے دخلی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد میانمار سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش میں پانچ لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کووڈ-19 کے بحران کے دوران، روہنگیا پناہ گزینوں کی کشتیوں کو خطے کی کسی بھی بندرگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا۔
یہ سانحہ دوسری جنگ عظیم کے حالات کی یاد دلاتا ہے جب نازی جرمنی سے فرار ہونے والے یہودی پناہ گزینوں کے جہازوں کو متعدد ممالک نے اپنی بندرگاہوں میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایک مختلف قسم کی تباہی کے متاثرین کے لیے کوئی بین الاقوامی نظام یا کنونشن موجود نہیں ہیں جو بڑھتے ہوئے سمندروں اور آب و ہوا کی تبدیلی کے دیگر اثرات سے بے گھر ہونے والوں کو نئی پناہ گاہیں مہیا کرسکیں۔
حالات تبدیل ہو چکے ہیں
چند تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ آج کے دور کی جیو پولیٹکس کی حقیقت سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ آج بھی سنہ 1945 کے حالات میں پھنسا ہوا ہے، اس وجہ سے اس کے ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اقوام متحدہ کا مستقبل
بہرحال اقوام متحدہ بحیثیت ایک ادارہ ناکام بھی رہا ہے اور کئی شعبوں میں کامیاب بھی رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے دوسرے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہیمرسکولڈ نے اس ادارے کو موثر بنانے کی کافی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے ایک موقعہ پر کہا تھا کہ اقوام متحدہ انسانیت کو جنت میں لے جانے کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی کوششوں کو سراہا جا سکتا ہے تاہم اس ادارے کو بہتر بنانے کی بہت ضرورت ہے وگرنہ اس کے مستقبل میں غیر متعلقہ ہوجانے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ خاص کر مستقل ارکان کی اجارہ داری اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو جیسے اداروں کا اس ادارے سے بالا بالا یا متوازی سطح پر اپنے فیصلے کرنا اور ان پر علدرآمد کرنا اس ادارے کے مستقبل کے لیے سنگین نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ پر لکھنے والے کئی تجزیہ کار اس میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر قاہرہ یونیورسٹی کے احمد مدحت نے اپنی کتاب ایک تنقیدی تجزیہ: اقوام متحدہ کی کارکردگی موجودہ عالمی چیلنجز کی روشنی میں میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام مسائل کا کلیدی حل اور اقوام متحدہ کے داغدار بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانے کی کنجی پانچ مستقل ارکان کے ہاتھ میں ہے۔ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور دیگر اصلاحاتی قراردادوں کے مسودوں کو پر عمل درآمد کے لیے سنہری کلید بگ فائیو کے پاس ہے کیونکہ ان قراردادوں کو منظور کرنے اور ضرورت پڑنے پر چارٹر میں ترامیم کے لیے ان کی منظوری ضروری ہے۔
ان کے مطابق، اقوام متحدہ ایک بیمار جسم بن چکا ہے، خاص طور پر آخری دہائی کے دوران مستقل اراکین کے اقدامات کی وجہ سے، جو نہ مرتا ہے اور نہ کبھی ٹھیک ہوتا ہے۔ فی الحال صرف دو ممکنہ راستے ہیں جن کے اپنے اپنے ممکنہ اثرات ہیں۔ لیکن ان میں کسی کا انتخاب انہی مستقل ارکان کو کرنا ہوگا۔ ایک راستہ یہ ہے کہ سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی طاقتیں اپنے تصادموں اور مفادات کو الگ کرتے ہوئے دنیا اور غیر مستحکم علاقوں اور خانہ جنگیوں میں مصیبت زدہ اقوام کا احساس کریں اور دوسرے ممالک اور اقوام متحدہ کے ساتھ قدم بقدم بحرانوں کا خاتمہ کریں اور ایک روشن مستقل کے نقیب بنیں۔
دوسرا مایوس کن راستہ ان طاقتوں کا اپنا تکبر جاری رکھنا ہے، جس کا مطلب اقوام متحدہ کے پہلے سے کمزور ہوتے ہوئے ادارے کو مسمار کرنا اور تنازعات اور مسائل کو مزید خراب کرنا ہے۔ لیکن پانچ مستقل ارکان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر انھوں نے موخرالذکر راستے کا انتخاب کیا تو وہ اس کی بھاری قیمت ادا کریں گے اور یہ طاقتیں قلیل مدتی فوائد حاصل کرنے کے لیے، جلد یا بدیر اپنے اعمال کے غیرمنصفانہ اور برے اثرات کا خود بھی شکار ہوں گی۔
احمد مدحت مزید کہتے ہیں کہ رکن ممالک کو سیکرٹری جنرل سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ تنازعات اور جنگ بندی کو ایک طرف رکھیں تاکہ وہ اس حقیقی چیلنج پر توجہ مرکوز کرسکیں جو اس وقت دنیا کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس، دنیا کے تمام ممالک، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر بیک وقت حملہ کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کروڑوں متاثر ہو چکے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، اقوام متحدہ اور خاص طور پر ڈبلیو ایچ او، رکن ممالک اور آبادی کے مابین تعاون سے اس وبائی مرض کا خاتمہ کرے گا اور ہمارے خاندانوں اور پیاروں کی زندگیاں بچائے گا!
(جاری)