آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا!

ازقلم :محمد ندیم الدین قاسمی
مدرس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد 

آج مسلمانانِ ہند اپنی تاریخ کے نازک ترین و مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ؛ ہر آئے دن ان کو ملک بدر کرنے ، ان میں خوف وہراس پیدا کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں، آج کل تو بعض شر پسند عناصر نے مسلمانوں کے منصوبہ بند طریقہ سے قتلِ عام کا تہیہ کرلیا ہے ؛چنانچہ
کبھی گؤ کشی کے نام پر کئی مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ   کی گئی، اور کی جارہی  ہے،کبھی منافرت کے شعلے بھڑکائے گئے،تو کبھی  ہندو مسلم قوموں کے درمیان نفرت کی فصل بوکر نفرت انگیز ماحول کو پروان چھڑایاگیا،ان فرقہ پرست طاقتوں نے گذشتہ بیس ،تیس برسوں میں "جمہوریت ” کا  جس طرح جنازہ نکالا وہ کسی صاحبِ نظر سے پوشیدہ نہیں،اورحالیہ "دھرم سنسد” کے اسٹیج سے مسلمانوں کے خلاف جو بے باک زہر افشانی کی گئی،خدا کی پناہ !
الغرض ہر جہت سے مسلمانانِ ہند  کو پریشان کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ؛ بہ قول شاعر؂

ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے

وہیں دوسری طرف ہمارے اصحابِ علم اور ناتجربہ کار اصحابِ قلم کے ایک طبقے نے ڈر، خوف، خود ملامتی اور مایوسی و ناامیدی کی اشاعت کو اپنا مشن بنالیا ہے، حادثات و واقعات کی مبالغہ آمیز اور کبھی غلط و بے بنیاد ترجمانی، مستقبل کے تعلق سے انتہائی شدید قسم کے خوف اور اندیشوں کی ترویج، ہر معاملے میں اُمت پر لعنت و ملامت اور ساری دنیا کو اپنا دشمن باور کرانے کی کوشش اِس مکتبِ دانش وری کی چندنمایاں خصوصیات ہیں،جس سے ایک ہندوستانی مسلمان جہاں فکر مند و  پریشان ہے وہیں  ناامیدی و مایوسی بھی ان میں روز افزوں ہے۔
ان مشکلات کا حل
لیکن اب سوال یہ ہے  کہ کیا ایسے مسائل و مشکلات کاحل مایوسی و ناامیدی ہے؟ کیا ایک ہندی مسلمان اسی طرح درد وکرب میں گھٹتے  گھٹتے زندگی گزار دے ؟
ہر گز نہیں! اس لئے کہ جس قوم کے پاس نبی کریم ﷺکی سیرت طیبہ ہو ،جن کے درد کا درماں قرآن وسنت کی شکل میں موجود ہو تو اسےمایوس ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ؛
بس قرآن وسنت کے بتائے ہوے اصولوں پر عمل کی ضرورت ہے،جو درجہ ذیل ہیں:
۱۔ثبات قدمی
سب سے پہلے ہمیں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے ، اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہےکہ مخالف سے مقابلہ کا سب سے پہلا اور  مؤثر ہتھیار ثبات قلب و قدم ہے ،قرون اولی کے تمام معرکوں میں مسلمانوں کی فوق العادات کامیابیوں اور فتوحات کا راز اسی میں مضمر ہے ؛  چنانچہ اہل مکہ نے  آپ ﷺپر کتنے مظالم نہیں ڈھائے!آپ کو شہرِ مکہ سے نکال دیا گیا،پوری مکی زندگی میں آپ کو جان کا خطرہ رہا، عین صحنِ کعبہ میں آپ کو پھانسی دینے کی کوشش کی گئی ، قتل کے منصوبے بنائے گئے ، طائف میں زخموں سے چور چور ہوگئے ، اُحد میں روئے منور سے خون کا فوارہ بہنے لگا ، شعب ابی طالب میں تین سال سے زیادہ عرصہ ایسا بائیکاٹ کیا گیا کہ مسلسل فاقوں سے گزرنا پڑا اور بنو ہاشم کے بچے ایک ایک دانے کو ترس گئے ، اپنے عزیزوں کی قربانی آپ نے اپنے آنکھوں سے دیکھی ، آپ نے حضرت حمزہؓ کی شہادت کا غم بھی سہا، مکی زندگی کے تیرہ سال آپ نے سخت مشقت میں گزارے اور مدینہ آنے کے بعد بھی آٹھ سال کا عرصہ اسی طرح گزرا کہ اہل مکہ کی طرف سے تابرتوڑ حملے ہوتے رہے ؛ لیکن کبھی آپﷺ ناامید ومایوس نہیں ہوئے۔
آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ کی تاریخ دیکھ لیجیے!
بلال حبشی ؓ کو عرب کی گرم ریت پر لٹادیا دیا گیا،حضرت خبیب ؓکو سولی پر چڑھادیا گیا،امام احمد بن حنبل ؒ کو اظہارِحق کی وجہ سےجیل میں ڈال دیا گیا،کوڑے مارے گئے،  تکالیف دی گئی ؛ لیکن ایمان پر ثابت قدم رہے ؛ اس لئےاب ہمیں بھی ضروری ہے کہ ہم  ایمان پر ثابت قدم رہے۔ ؂
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

حالات تو آتے ہیں ہمیں  آزمانے کے لئے، بس صبرو استقامت کی ضرورت ہے،قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا ،وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (سورہ بقرہ۔۱۵۵)

۲۔انابت الی اللہ
ان حالات میں ہم اللہ کی طرف رجوع کریں ، اپنے گناہوں سے باز آجائیں، اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کریں،جب خدا ہمارا ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتی۔  ؂
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے۔
۳۔اصحابِ علم وقلم امت میں خوف کے بجائے خود اعتمادی ویقین پیدا کریں
اس وقت ضروری ہے کہ اصحابِ علم وقلم مسلمانوں میں یقین و اُمید، خود اعتمادی،  زورِ بازو پر بھروسہ، اور حالات کو بدلنے کی قوتِ محرکہ ان کے اندر  پیداکرنے کی کوشش کریں؛  کیوں کہ قوموں کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی، اندیشے ،ناامیدی اور خوف و ہراس کا شکار ہوکر وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں ؛ اس لئے اب ضروری ہے کہ اربابِ علم و قلم اس سےگریز کریں،امت مسلمہ میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
۴۔ تعلیمی ومعاشی پسماندگی کو دور کرنے کی فکر کریں
تعلیم ایک بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر انسان ،انسانی اخلاق و اقدار سے آراستہ نہیں ہو سکتا ہے ،یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے جس کے بغیر معاشی پسماندگی کا خاتمہ ایک ایسا خواب ہے جو کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے ،اعلی تعلیم( High Education) کے بغیر نہ تو غربت دم توڑ سکتی ہے اور نہ ہی مسلم قوم ، عزت و وقار اور ترقی کا معیار قائم کرسکتی ہے،جو قوم جوہرِ تعلیم سے محروم ہوتی ہے وہ نہ تو سر اٹھا کر جی سکتی ہے اور نہ ہی جینے کا ہنر جانتی ہے ، تعجب ہے جس قوم کا ماضی اتنا شاندار تھااس کا حال اس قدر تاریک ترین کیوں ہوگیا ؟
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی "اقراء” سے ہوا تھا
اس لئے اب والدین کے ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائیں ،اور مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلسہ وجلوس میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے افراد سازی میں پیسہ صرف کریں ، اور ایسے افراد تیار کریں جو تعلیمی ،سیاسی،اور معاشی ہر اعتبار سے کامل ہوں ؛ اس لئےکہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعد موہن بھاگوت نے بڑی گرم جوشی سے یہ بیان دیاتھا "ہم افراد سازی کا کام  بڑی خاموشی کے ساتھ کرتے ہیں پھر نتیجے خود بہ خود شور مچاتے ہیں” اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؂
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔
۵۔قومی یک جہتی
ایسےمخالف ماحول میں اس وقت سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو ماحول اور ذہن بناکر نفرت وعداوت کی کھائیاں پیداکردی گئی ہیں انھیں پاٹ کر برادرانِ وطن تک محبت وانسانیت کا پیام پہنچایا جائے،نفرت کے جوشعلےفرقہ پرست طاقتوں نے بھڑکائے ہیں  تو ان کو حسن اخلاق سے بھجایاجائے۔ ؂
حسنِ کردار سے نورِ مجسم ہوجا
ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہوجائے۔
۶۔ جمہوریت کی حفاظت
ان ہدایاتِ قرآنیہ کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر ایک آواز ،  ایک طاقت بن کر دستور بچانے کے لیے کمر بستہ ہوجائے، دستور کی حفاظت اور جمہوریت کی بقا کے خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کا عزم کرے،اور فرقہ پرست طاقتوں سے کہہ دیں کہ تمہارے پاس اگر حکومت ہے تو ہمارے پاس آئینِ ہند کی طاقت ہے ، اور یہ ذہن میں رکھے کہ پہلے بھی ہم نے آزادی کے لیے لڑائی لڑی تھی ، اور اب ہمیں دستور بچانے کے لیے جد و جہد کرنا ہے ۔
اللہ عمل کی توفیق دے ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے