بی مسکان تجھے لاکھوں سلام! تیری جرأت و بلند حوصلگی کو صد ہزار بار سلام

(مفتی)شفیع احمد، خادم التدريس: جامعہ ابن عباس احمد آباد

کرناٹک ضلع منڈیا کے مہاتما گاندھی میموریل کالج او ڈو پی کی بہادر طالبہ بی مسکان خان ولد محمد حسین خان نے اپنی غیر معمولی جرأت و بسالت سے پورے ملک کی توجہ اپنی طرف موڑ لی ہے، جس سے اس وقت نہ صرف پوری قوم و ملت بلکہ ملک کا سیکولر طبقہ بھی اسے سلام پیش کر رہا ہے، بی کام کے اس طالبہ کی بہادری و بےباکی کو آج جس قدر داد وتحسين سے نوازا جائے کم ہے، ہر طرف اس کی اس بےپایاں جرأت و جذبہ کو سراہا جارہا ہے، اسے سلیوٹ کیا جارہا ہے، جرأت و دلیری کی اگر کوئی مجسم شکل ہوتی اور اس کا کوئی خاص چہرہ ہوتا تو ہم کہہ دیتے کہ وہ یہی چہرہ ہوتا۔
قوم کی اس بہادر وجری بیٹی کی تعریف و توصیف کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، اس کے اس بےباکانہ جذبہ و کردار پر لاکھوں کروڑوں سلام، خدا تجھے بہت دنوں تک زندہ و تابندہ رکھے، تاریخ تیرے اس جذبہ و دلیری کو فراموش نہیں کر سکے گی،
واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ جب مسکان کالج پہونچی تو کچھ بھگوا دھاری انتہا پسند چھاتروں نے اسے دیکھا، اور جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے چیل کی طرح اس صنف نازک پر لپکے ، جیسے کسی سنسان علاقے میں بھیڑیوں کے ایک جتھہ کو کوئی شکار ہاتھ آگیا ہو، اور یہ بھیڑیے اب اسے نوچ لیں گے، کھا جائیں گے،
ان بھگوا دھاریوں کو شاید یہ تصور ہوگا، کہ ہماری اس بھیڑ دیکھ کر اور جے شری رام کے نعرہ کو سن کرسہم جائے گی، اور اس پر کپکپی طاری ہوجائے گی، اور پھر بھیڑ اپنے منشأ کے مطابق اس سے اس کا حجاب اتارنے میں کامیاب ہوجائے گی، اور یہ ڈرپوک نقاب پوش اپنے چہرے سے نقاب کو اتار پھیکے گی، لیکن ہوا بالکل اس کے برعکس، وہ نقاب پوش جسے یہ شر پسند ڈر اور خوف کا پیکر و مجسمہ سمجھ رہے تھے، وہ تو چیتے اور شیر کی طرح دھاڑی اور تنہا نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی بھیڑ کی طرف قدم آگے بڑھائی، اور ہجوم کے سامنے جاکر پہاڑ کی چٹانوں کی طرح اپنے کو جمادیا، اور ڈرپوک بھگوا دھاریوں کے سامنے ایسی ڈٹ کر کھڑی ہوئی، کہ اس کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں تھی،
کالج کے کچھ عملہ نے اس پیکرِ جرأت کو وہاں سے ہٹایا، ورنہ دیکھنے والوں نے اس کی ہمت و دلیری کو دیکھا، اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے، کہ واہ رے ہمت کی چٹان، اپنے جرأت مندانہ کردار اور اپنے بےباکانہ جذبہ سے یہ ثابت کر دیا کہ اپنی آئینی و دینی حقوق کیلئے باد مخالف کی تیز تند ہوا کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور بھگوا دھاری تیز آندھیوں کے ساتھ یکا و تنہا پنجہ آزمائی کرنا یہ کام صرف جوان ہمت مرد ہی نہیں، بلکہ تجھ جیسی نازک اندام دوشیزہ بھی بخوبی انجام دے سکتی ہے،
واہ آج تم نے اپنے پرکشش حوصلوں اور جرأتوں سے ملک و قوم کی بیٹوں کو یہ پیغام دیا ہے، کہ انصاف اور سچائی کو کوئی طاقت جھکا نہیں سکتی، اور اسی کے ساتھ تمہاری بہادری نے یہ میسج بھی دیا ہے کہ موقعہ آئے تو اپنے حقوق کیلئے لڑنے میں ذرا پس و پیش نہ کرنا ، اور اپنے ایمان و یقین کی حفاظت کیلئے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ،کیوں کہ جیت بالآخر سچائی کی ہوگی، اور حق غالب ہوکر رہے گا، اور باطل تو مٹنے ہی کیلئے آیا ہے، وہ مٹے گا اور کچلا جائے گا، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہمت و جذبہ میں مزید ترقی عطاء فرمائے، اور اس کے مستقبل کو منور کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے