دوسروں کی شکایت کرنے کی بجائے مثبت سوچ اور اعمال کا قد بلند کیجئے!

قرطاس فاؤنڈیشن کی شام ِ افسانہ میں عقیل خان بیاولی کا اِظہار خیال

جلگاؤں: یوں تو شہر ادبی لحاظ سے ہمیشہ ہی زرخیز رہا ہے لیکن گزشتہ 4-5 عشروں سے اس میں قدرے اضافہ ہواہے۔صنفِ شاعری بالخصوص مشاعروں کے علاوہ فکشن نگاری کی نشستیں بھی یہاں منعقد ہوتی ہیں نیز صوبائی و قومی سیمینارس بھی اس ضمن میں ہوتے ہیں۔جو جوانوں کو تحریک دیتے ہیں۔لہٰذا ”قرطاس فاؤنڈیشن،جلگاؤں“کی جانب سے عقیل خان بیاولی کے دولت کدہ پر ایک افسانوی نشست بہ عنوان ”شام ِ افسانہ“ منعقد ہوئی۔جس میں پرانے برگد کی چھاؤں اور نئی کونپلوں کے اِختلاط کے نئے باب کا آغاز کیا گیا۔ساتھ ہی کوشش کی گئی کہ افسانے سننے کے بعد ان پر مختصراً گفتگو بھی کی جائے۔آغاز حافظ شفیق الرحمن کی تلاوت ِ قرآن سے کیا گیا،قرطاس کے عزائم اور نشست کے اغراض و مقاصد سید الطاف علی نے پیش کئے۔مہمانان کا تعارف ڈاکٹر انیس الدین شیخ نے جبکہ گلہائے استقبال تبریز اسلم نے پیش کئے۔قرطاس فاؤنڈیشن کے صدر شیخ زیان احمد اور اقراء تھِم کالج کے ڈاکٹر چاند خان کے ہاتھوں شمع فروزی کے ذریعہ نشست کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا۔اسی طرح گزشتہ سال دارِ فانی دارُلبقاء کو انتقال کرگئے شعراء وادباء کے لیے تعزیت کے بعد اور دعائے مغفرت کی گئی۔بعد ازیں نشست میں نو عمر راقم اُسید اَشہر نے اپنے افسانہ ”انوکھی پہل“ کے ذریعہ اِسلامی مزاج رکھنے والے خاندانوں میں عمومی طور پر پائی جانے والی چھوٹی چھوٹی برائیوں جیسے قریبی رشتہ داروں سے قطع تعلق وغیرہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے احادیث کی روشنی میں حسن سلوک کا درس دیا۔کھیل کے میدان سے ادبی میدان پر اُترے ناصر پٹھان،ابو شفاءؔ نے ”بھکاری“ کے عنوان سے جہیز لینے کے بدلتے طور طریقوں اور حیلے بہانوں پر بحث کرتے ہوئے آج کل آئے دِن ہورہے ’مثالی نکاح‘ کی قلعی کھولی۔کہنہ مشق قلمکار وحید اِمام نے پہلے’افسانہ‘ کے اجزاء اور فن پر مختصراً روشنی ڈالی پھر اپنا افسانہ ”اِبلیس کا U-Turn“ میں حضرتِ اِنسان کے گناہوں کا سلسلہ وار تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ دور میں شیطان بارگاہِ اِلٰہی میں شکایتاً اپنی شکست قبول کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یا اِلٰہی میں تو ملعون ہوں لیکن انسان نے وہ گناہ جو خود اُسی کی ایجاد ہیں وہ بھی میرے سر مڑھ کر مجھے اپنی نظروں میں گرادیا ہے۔سِنیئر صحافی اور افسانہ نگار سعید پٹیل نے بیٹی مسکان خان کی جرأ ت مندی کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے بعد افسانہ ”اعزاز“ کے ذریعہ معاشرے میں مختلف میدانوں میں کام کرنے والوں کو دئیے جارہے اعزازت اور ان کی غیر ضروری تعریفوں کے سیاسی منظر نامے کو پیش کیاساتھ ہی حق داروں کی اعزازت سے محرومی کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنوں کء دو میٹھے بول کو سب سے بڑا اعزاز گردانا۔اسی طرح معین الدین عثمانی نے ”عہد ِوفا“ کے ذریعہ آج کے سائنس وتکینیکی ترقی کے دور میں گھریلو رِشتہ داروں کی سوشل میڈیا کے سبب ہونے والی بیجا مصروفیت سے رونما ہونے والے اکیلے پن اور بڑی تیزی سے پنپنے والے وعدہ خلافی کے مرض کو بڑی چابکدستی سے پیش کیا۔بطور تاثرات ڈاکٹر شکیل سعید نے قرطاس فاؤنڈیشن کے شکرئیے کے ساتھ نشست میں پیش کردہ افسانوں کو اپنے گھر بار اور اطراف کی داستانوں کے بکھرے اوراق بتاتے ہوئے تمام کی خوب ستائش کی۔اسی طرح ڈاکٹر چاند خان نے نشست کو کامیاب بتاتے ہوئے قرطاس کے ذمہ داران کو دعاؤں سے نوازا۔وسیم عقیل شاہ نے افسانہ نگاری کی مختلف جہتوں کو پیش کیا۔اپنے صدارتی خطاب میں کے کے گرلز ہائی اسکول و جونیئر کالج کے پرنسپل،قلمکار اور فری لانس جرنلسٹ عقیل خان بیاولی نے کہا ادب کی چہار سو‘ پھیلی ہوئی روشنی کی ضیاء بار شعاعیں نئی قلم کو راستے دکھا رہی ہیں لیکن کہیں کوئی کمی یا خامی رہ جائے تو ہمیں اس کی شکایت کے انبار لگانے کی بجائے اپنے فن،صلاحیت اور اعمال کے مظاہرے سے اس کمی یا خامی کی نشاندہی بغیر جتائے کرنی چاہئے جیسے چھوٹی لکیروں کو بغیر مٹائے اپنی لکیروں کو بڑا کیا جاتا ہے۔اِسی میں عقلمندی اور کامیابی کی کنجیاں پوشیدہ ہیں۔اپنی نہایت لطیف اور پُر مِزاح نظامت کے ذریعہ ڈاکٹر انیس الدین نے حاضرین کو خوب متاثر کیا،قرطاس کے سیکریٹری جانثار اختر نے کلمات ِ تشکر پیش کئے۔نشست میں قرطاس فاؤنڈیشن کے نائب صدر کاشف انجم،ساجد اختر،شیخ زبیر موسیٰ،اشفاق شیخ، ارشد نظروغیرہ موجود تھے۔